ہر شے وہی نہیں ہے جو پرچھائیوں میں ہے
ہر شے وہی نہیں ہے جو پرچھائیوں میں ہے
اس کے سوا کچھ اور بھی گہرائیوں میں ہے
آئینہ جس سے ٹوٹ کے بے آب ہو گیا
وہ عکس بے نوا بھی تماشائیوں میں ہے
فرصت ملے تو میں بھی کوئی مرثیہ لکھوں
اک دشت کربلا مری تنہائیوں میں ہے
کس شہر میں تلاش کریں رشتۂ وفا
سنتے تو ہیں پرانی شناسائیوں میں ہے
دریا کے زور و شور پہ باتیں ہزار ہوں
پانی مگر وہی ہے جو گہرائیوں میں ہے
گھل جائے شعر میں تو زمیں آسماں بنے
وہ حسن لا زوال جو سچائیوں میں ہے
بے کار اس کو اہل وفا میں گنا گیا
نامیؔ کہاں سے آپ کے شیدائیوں میں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.