حسرت دل تھی کہاں کی وہ کہاں تک پہنچے
حسرت دل تھی کہاں کی وہ کہاں تک پہنچے
پھر بہاروں کے تمنائی خزاں تک پہنچے
دشت سے ہم کو نکالا بڑی بے رحمی سے
کیوں نہ پھر قصۂ غم سب کی زباں تک پہنچے
تم کسی سے بھی ملو ہم نے کبھی کچھ نہ کہا
تم فلانے سے ملے اور فلاں تک پہنچے
آج بھی صاحب ادراک بہت ملتے ہیں
ایسے بھی لوگ ہیں جو درد نہاں تک پہنچے
کوچ کر جاتے ہیں گلشن سے کہیں ایسا نہ ہو
ہاتھ ہر پھول کا میری رگ جاں تک پہنچے
شاعری شوق نہیں بلکہ ضرورت ہے مری
تاکہ مریمؔ کی صدا سارے جہاں تک پہنچے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.