ہوا کے زور سے جب بادبان پھٹنے لگے
ہوا کے زور سے جب بادبان پھٹنے لگے
مسافر اپنے خداؤں کے نام رٹنے لگے
ہمارے سینوں پے اب بھی بہت جگہ ہے جناب
مگر تمہارے ہی ترکش میں تیر گھٹنے لگے
یزید وقت ہوا جس گھڑی سے تخت نشیں
ہمارے نام کے خنجر ہر اک میں بٹنے لگے
مکان ہم نے بنا تو لیا کنارے پر
نہ ایسا ہو کے کنارے کی ریت کٹنے لگے
تمہاری خوشیاں بھی میری ہیں غم بھی میرے ہیں
یہ مال مفت نہیں جو ہر اک جھپٹنے لگے
اسے چراغ کا رتبہ کہوں یا رعب کہوں
ہوا کے پر مری دہلیز پر سمٹنے لگے
یہ کس نے پھینکا ہے پتھر دھدھکتے شعلوں پر
شرارے ہو کے جدا آگ سے اچٹنے لگے
بہت تھا زعم جنہیں اپنی شہ سواری پر
گرے کچھ ایسے کے سینہ کے بل گھسٹنے لگے
تیرے محل کے حصاروں کی اینٹ جھڑنے لگیں
نہ ایسا ہو تیرا شاہی وقار گھٹنے لگے
ہوئے ہیں شہر بدر ہم مگر خدا نہ کرے
مکان دھنسنے لگیں اور زمیں پلٹنے لگے
نوازؔ ہم ہی تھے جو راستہ نہیں بدلہ
وہ زلزلہ تھے کے دریا بھی رہ سے ہٹنے لگے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.