حیات مجھ پہ اک الزام ہی سہی پھر بھی
حیات مجھ پہ اک الزام ہی سہی پھر بھی
بہت عزیز ہے مجھ کو یہ زندگی پھر بھی
نہیں کچھ اور تو ممکن تھی خود کشی پھر بھی
ہے کوئی بات کہ جیتا ہے آدمی پھر بھی
یہ تیرگی تو بس اک گردش زمیں تک ہے
مگر یہ رات جو ہم سے نہ کٹ سکی پھر بھی
چمن لٹا ہے خود اہل چمن کی سازش سے
کلی کلی ہے مگر محو خواب سی پھر بھی
کسی کو پا کے بھی اکثر گماں یہ ہوتا ہے
کہ جیسے رہ گئی باقی کوئی کمی پھر بھی
ہمیں پہ یورش ظلمت ہمیں ہیں کشتۂ شب
ہمیں ہیں پیش رو صبح و روشنی پھر بھی
لب کلیمؔ پہ اب نغمۂ بہار تو ہے
یہ اور بات کہ آنکھیں ہیں شبنمی پھر بھی
- کتاب : Noquush (Pg. B369 E383)
- مطبع : Nuqoosh Press Lahore (May June 1954)
- اشاعت : May June 1954
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.