ہندوستان چھوڑ دو
’’صاحب مرگیا‘‘، جینت رام نے بازار سے سودے کے ساتھ یہ خبر لاکر دی۔۔۔
’’صاحب! کون صاحب؟‘‘
’’وہ کانڑیا صاحب تھانا۔‘‘
’’او کانا صاحب۔ جیکسن۔۔۔ چہ، بے چارا۔‘‘ میں نے کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا۔ کائی لگی پرانی جگہ جگہ سے کھونڈی بتیسی کی طرح منہدم ہوتی ہوئی دیوار کے اس پار ادھڑے ہوئے سیمنٹ کے چبوترے پر سکھوبائی پیر پسارے بیٹھی مراہٹی زبان میں بین کر رہی تھی۔ اس کے پاس پٹوا کڑوں بیٹھا ہچکیوں سے رو رہا تھا۔ پٹو یعنی پیٹر، کالے گورے میل کا نادر نمونہ، اس کی آنکھیں جیکسن صاحب کی طرح نیلی اور بال بھورے تھے۔ رنگ گندمی تھا جو دھوپ میں جل کر بالکل تانبے جیسا ہو گیا تھا۔
اسی کھڑکی میں سے میں برسوں سے ایک عجیب و غریب خاندان کو دیکھتی آئی ہوں۔ یہیں بیٹھ کر میری جیکسن سے پہلی مرتبہ بات چیت ہوئی تھی۔ سن بیالیس کا ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ کا ہنگامہ زوروں پر تھا۔ گرانٹ روڈ سے دادر تک کا سفر ملک کی بے چینی کا ایک مختصر مگر جاندار نمونہ ثابت ہوا تھا۔ منگٹن روڈ کے نالے پر ایک بڑا الاؤ جل رہی تھا۔ جس میں راہ چلتوں کی ٹائیاں ہیٹ اور کبھی موڑ آ جاتا تو پتلونیں اتار کر چلائی جارہی تھیں۔ سین کچھ بچگانہ سہی مگر دلچسپ تھا۔ لچھے دار ٹائیاں نئے طرح دار ہیٹ، استری کی ہوئی پتلونیں بڑی بے دردی سے آگ میں جھونکی جارہی تھیں۔ پھٹے چھیتڑے پہنے آتش باز نئے نئے کپڑوں کی نہایت بے تکلفی سے آگ میں جھونک رہے تھے۔ ایک لمحے کو بھی تو کسی کے دل میں یہ خیال نہیں آ رہا تھا کہ نئی گیبرڈین کی پتلون کو آگ کے منہ میں جھونکنے کے بجائے اپنی ننگی سیاہ ٹانگوں پر ہی چڑھالے۔
اتنے میں ملٹری ٹرک آگئی تھی جس میں سے لال بھبوکا تھوتھنیوں والے گورے ہاتھوں میں مشین گنیں سنبھالے دھمادھم کودنے لگے۔ مجمع ایک دم پھر سے نہ جانے کہاں اڑ گیا تھا۔ میں نے یہ تماشا میونسپل دفتر کے محفوظ احاطے سے دیکھا تھا اورمشین گنیں دیکھ کر میں جلدی سے اپنے دفتر میں گھس گئی تھی۔
ریل کے ڈبوں میں بھی افراتفری مچی ہوئی تھی۔ بمبئی سنٹرل سے جب ریل چلی تھی تو ڈبہ کی آٹھ سیٹوں میں سے صرف تین سلامت تھیں۔ لوئر پریل تک وہ تینوں بھی اکھیڑ کر کھڑکیوں سے باہر پھینک دی گئیں۔ اور میں راستہ بھر کھڑی دادر آئی۔ مجھے ان چھوکروں پر قطعی کوئی غصہ نہیں آرہا تھا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا یہ ساری ریلیں، یہ ٹائیاں، پتلونیں ہماری نہیں دشمن کی ہیں۔ ان کے ساتھ ہم دشمن کو بھی بھون رہے ہیں۔ اٹھاکر پھینک رہے ہیں۔ میرے گھر کے قریب ہی سڑک کے بیچوں بیچ ٹریفک روکنے کے لیے ایک پیڑ کا لمبا سا گدّھا سڑک پر لمبا لمبا ڈال کر اس پرکوڑے کرکٹ کی اچھی خاصی دیوار کھڑی کردی گئی تھی۔ میں بمشکل اسے پھلانگ کر اپنے فلیٹ کے دروازے تک پہنچی ہی تھی کہ ملٹری ٹرک آگئی۔ اور جو پہلا گورا مشین گن لیے دھم سے کودا تھا۔ وہ جیکسن صاحب ہی تھا۔ ٹرک کی آمد کی خبر سنتے ہی سڑک پر روک باندھنے والا ادھر ادھر بلڈنگوں پر سٹک گیا تھا۔
میرا فلیٹ چونکہ سب سے نچلی منزل پر تھا لہٰذا بہت سے چھوکرے ایک دم ریلا کر کے گھس آئے۔ کچھ باورچی خانہ میں گھس گئے۔ کچھ غسل خانہ میں اور سنڈاس میں دبک گئے۔
چونکہ میرا دروازہ کھلا تھا اس لیے جیکسن معہ دو مسلح گوروں کے مجھ سے جواب طلب کرنے آگے آیا۔
’’تمہارے گھر میں بدمعاش چھپے ہیں انہیں ہمارے سپرد کر دو۔‘‘
’’میرے گھر میں تو کوئی نہیں۔ صرف میرے نوکر ہیں‘‘، میں نے بڑی لا پرواہی سے کہا۔
’’کون ہیں تمہارے نوکر؟‘‘
’’یہ تینوں۔۔۔‘‘ میں نے تین آدمیوں کی طرف اشارہ کیا جو برتن کھڑ پڑ کر رہے تھے۔
’’غسل خانہ میں کون ہے؟‘‘
’’میری ساس نہا رہی ہے‘‘، میری ساس نہ جانے اس وقت کہاں ہوں گی۔
’’اور پاخانہ میں‘‘، اس کے چہرے پر کچھ شرارت کی جھپکی آئی۔
’’میری ماں ہوں گی یا شاید بہن ہو۔ مجھے کیا پتہ میں تو ابھی باہر سے آئی ہوں۔‘‘
’’پھر تمہیں کیسے معلوم ہوا غسل خانہ میں تمہاری ساس ہے؟‘‘
’’میں داخل ہوئی تو انہوں نے آواز دے کر تولیہ مانگا تھا۔‘‘
’’ہوں۔۔۔ اچھا اپنی ساس سے کہہ دو سڑک روکنا جرم ہے‘‘، اس نے دبی آواز میں کہا اور اپنے ساتھیوں کو جنہیں وہ باہر کھڑا کر آیا تھا واپس ٹرک میں جانے کو کہا۔
’’ہوں۔۔۔ ہوں ہوں۔‘‘ وہ گردن ہلا کر مسکراتا ہوا چلا گیا۔ اس کی آنکھوں میں پرمعنی جگنو چمک رہے تھے۔
جیکسن کا بنگلہ میرے احاطے سے ملحقہ زمین پر تھا۔ مغربی رخ پر سمندر تھا۔ اس کی میم صاحب مع دو بچوں کے ان دنوں ہندوستان آئی ہوئی تھی۔ بڑی لڑکی جوان تھی اور چھوٹی بارہ تیرہ برس کی۔ میم صاحب صرف چھٹیوں میں تھوڑے دنوں کے لیے ہندوستان آ جاتی تھی۔ اس کے آتے ہی بنگلہ کا حلیہ بدل جایا کرتا تھا۔ نوکر چاق و چوبند ہو جاتے۔ اندر باہر پتائی جاتی۔ باغ میں نئے گملے مہیا کیے جاتے۔ جو میم صاحب کے جاتے ہی پاس پڑوس کے لوگ چرانا شروع کردیتے۔ کچھ مالی بیج ڈالتا اور دوبارہ جب میم صاحب کی آمد کا غلغلہ مچتا تو صاحب پھر وکٹوریہ گارڈن سے گملے اٹھوا لاتا۔ جتنے دن میم صاحب رہتی نوکر باوردی نظر آتے، صاحب بھی یونیوارم ڈالے رہتا یا نہایت عمدہ ڈریسنگ گاؤں پہنے صاف ستھرے کتوں کے ساتھ پھولوں کا بالکل اس طرح معائنہ کرتا پھرتا گویا وہ سوفی صد صاحب لوگوں میں سے ہے۔ مگر میم صاحب کے جاتے ہی وہ اطمینان کی سانس لے کر دفتر جاتا ڈیوٹی کے بعد نیکر اور بنیان پہنے چبوترے پر کرسی ڈالے بیئر پیا کرتا اور شاید اس کا ڈریسنگ گاؤن اس کا بیرا چرالے جاتا۔ کتے تو میم صاحب کے ساتھ ہی چلے جاتے۔ دو چار ٹیری کتے بنگلے کو یتیم سمجھ کر احاطے میں ڈیرہ ڈال دیتے۔
میم صاحب جتنے دن رہتی ڈنر پارٹیوں کا زور رہتا۔ اور وہ صبح ہی صبح پنچم سروں میں اپنی آیا کو آواز دیتی۔۔۔ ’’آیو۔ ودو!‘‘
’’جی میم صاحب‘‘، آیا اس کی آواز پر تڑپ کر دوڑتی۔ مگر جب میم صاحب چلی جاتی تو لوگوں کا کہنا تھا بیگم بن بیٹھی تھی۔ وہ اس کی غیر حاضری میں غیوضی بھگتایا کرتی تھی۔ فلومینا اور پٹواسی عارضی راج کے مستقل ثبوت تھے۔
’’کچھ ہندوستان چھوڑ دو‘‘، کا ہنگامہ اور کچھ میم صاحب اکتا گئی تھی۔ اس گندے پچپچاتے ملک اور اس کے باسیوں سے۔ اس لیے وہ جلد ہی وطن سدھار گئی۔ انہیں دنوں پھر میری ملاقات جیکسن سے اسی کھڑکی کے ذریعہ ہوئی۔ تمہارا ساس نہا چکا۔۔۔ اسن نے بمبئی کی زبان میں بد ذاتی سے مسکرا کر پوچھا۔
’’ہاں صاحب۔۔۔ نہا چکا۔۔۔ خون کا غسل کیا اس نے‘‘، میں نے تلخی سے کہا۔ چودہ چودہ برس کے چند بچے کچھ ہی دن پہلے ہری نواس پر جو گولی چلی تھی۔ اس میں مارے گئے تھے۔ مجھے یقین تھا کہ ان میں کچھ وہی بچے ہوں گے جو اس دن جب ٹرک آگئی تھی تو میرے گھر میں چھپ گئے تھے۔ مجھے صاحب سے گھن آنے لگی تھی۔ برٹش سامراج کا جیتا جاگتا ہتھیار میرے سامنے کھڑا ان بے گناہوں کے خون کا مذاق اڑا رہا تھا جو اس کے ہاتھ سے مارے گئے تھے۔ میرا جی چاہا اس کا منہ نوچ لوں اس کی کونسی آنکھ شیشے کی تھی۔ یہ اندازہ لگانا میرے لیے مشکل تھا کیونکہ وہ شیشے والی آنکھ ولائتی فنکاری کااعلیٰ نمونہ تھی۔ اس میں ساری جیکسن کی سفید قوم کی چالبازی بھری ہوئی تھی۔ احساس برتری کا زہر دونوں ہی آنکھوں میں برابر رچا ہوا تھا۔ میں نے دھڑ سے کھڑکی کے پٹ بند کردیے۔
مجھے سکھوبائی پر غصہ آتا تھا۔ سور کی بچی سفید قوم کے ذلیل کتے کا تر نوالہ بنی ہوئی تھی۔ کیا خود اس ملک کے کوڑھیوں اور حرامزادوں کی کمی تھی۔ جو وہ ملک کی غیرت کے نیلام پر تل گئی تھی۔ ہر روز جیکسن شراب پی کر اس کی ٹھکائی کرتا۔ ملک میں بڑے بڑے معرکے سرکیے جارہے تھے۔ سفید حاکم بس چار دنوں کے مہمان تھے۔
’’بس اب چل چلاؤ ہے ان کی حکومت کا‘‘، کچھ لوگ کہتے۔
’’اجی یہ شیخ چلی کے خواب ہیں۔ انہیں نکلنا مذاق نہیں‘‘، دوسرے لوگ کہتے اور ملک کے نیتاؤں کی لمبی چوری تقریریں سن کر سوچتی۔ ’’کوئی جیکسن کانے صاحب کا ذکر ہی نہیں کرتا۔ وہ مزے سے سکھو بائی کے جھونٹے پکڑ کر پیٹتا ہے۔ فلومینا او رپٹو کو مارتا ہے۔ جے ہند کے نعرے لگانے والے اس کم بخت کا کچھ فیصلہ کیوں نہیں کرتے۔‘‘
مگر میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں۔ پچھواڑے شراب بنتی تھی۔ مجھے معلوم تھا۔ سب کچھ مگر میں کیا کرسکتی تھی۔ سنا تھا کہ اگر ان غنڈوں کی رپورٹ کردو۔ تو یہ جان کے لاگو ہو جاتے ہیں۔ ویسے مجھے یہ بھی تو نہیں معلوم تھا کہ کس سے رپورٹ کروں۔ ساری بلڈنگ کے نل دن رات ٹپکتے تھے۔ موریاں سڑ رہی تھیں۔ مگر مجھے قطعی نہیں معلوم تھا کہ کہاں اور کس سے رپورٹ کی جاتی ہے۔ آس پاس رہنے والوں میں بھی کسی کو نہیں معلوم تھا کہ اگر کوئی بدذات عورت اوپر سے سر پر کوڑے کاٹین الٹ دے تو اس کی کس سے شکایت کرو۔ ایسے موقعوں پر عموماً جس کے سر پر کوڑا گرتا وہ منہ اونچا کرکے کھڑکیوں کو گالیاں دیتا کپڑے جھاڑتا اپنی راہ لیتا۔
میں نے موقع پاکر ایک دن سکھوبائی کو پکڑا۔
’’کیوں کم بخت! یہ پاجی تمہیں روز پیٹتا ہے تجھے شرم بھی نہیں آتی۔‘‘
’’روج کبھی مارتا بائی؟‘‘ وہ بحث کرنے لگی۔
’’خیر وہ مہینے میں چار پانچ دفعہ تو مارتا ہے نا!‘‘
’’ہاں مارتا ہے بائی۔۔۔ سو ہم بھی سالے کو مارتاہے‘‘، وہ ہنسی۔
’’چل جھوٹی۔‘‘
’’ارے پٹو کا سوگند۔۔۔ ہم تھوڑا مار دیا سالا کو پرسوں؟‘‘
’’مگر تجھے شرم نہیں آتی، یہ سفید چمڑی والے کی جوتیاں سہتی ہے؟‘‘ میں نے ایک سچے وطن پرست کی طرح جوش میں آکر لکچر دے ڈالا۔ ’’ان لٹیروں نے ہمارے ملک کو کتنا لوٹا ہے‘‘، وغیرہ وغیرہ۔
’’ارے بائی کیا بات کرتا تم۔ صاحب سالا کوئی کو نہیں لوٹا۔ یہ جو موالی لوگ ہے نا یہ بیچارا کو دن رات لوٹتا۔ میم صاحب گیا۔ پیچھے سب کٹلری پھٹلری بیرا لوگ پار کردیا۔ اکھا پاٹلون، کوٹ ہیٹ، اتنا فسٹ کلاس جوتا۔۔۔ سب کھتم۔۔۔ دیکھو چل کے بنگلے میں کوچھ بھی نئیں چھوڑا۔ تم کہتا ہے چور ہے صاحب، ہم بولتا ہم نئیں ہووے تو سالا اس کا بوٹی کاٹ کے جاوے اے لوگ۔‘‘
’’مگر تمہیں کیوں اس کا اتنا درد ہے؟‘‘
’’کائیکو نئیں ہووے درد وہ ہمارا مرد ہے نا بائی۔۔۔‘‘ سکھو بائی مسکرائی۔
’’اور میم صاحب؟‘‘
’’میم صاحب سالی پکی چھنال ہاں۔۔۔‘‘ سکھو بائی نے فیصلہ کیا۔ ’’ہم اس کو اچھی طرح جانتا۔۔۔ ہاں۔۔۔ لندین میں اس بوت تار ہے۔‘‘ یہاں سکھو بائی نے موٹی سی گالی دے کر کہا۔ وہیں مری رہتی ہے۔ آتی بھی نئیں، پن آتی تو اکھا دن صاحب سے کھٹ کھٹ۔ نوکر لوگ سے کھٹ کھٹ۔‘‘
میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ اب انگریز ہندوستان سے جا رہے ہیں۔ صاحب بھی چلا جائے گا۔ مگر وہ قطعی نہیں سمجھی۔ یہی کہتی رہی، ’’صاحب ہم کو چھوڑ کے کیا جائے گا۔۔۔ بائی اس کو ہلایت ایک دم پسند نہیں۔‘‘
کچھ سال کے لیے مجھے پونا رہنا پڑا۔ اس عرصے میں دنیا بدل گئی۔ پھر واقعی انگریز چلے گئے۔ ملک کا بٹوارہ ہوا۔ سفید حاکم پٹی ہوئی چال چل گیا اور ملک خون کی لہروں میں نہا گیا۔
جب بمبئی واپس آتی تو بنگلہ کا حلیہ بدلا ہوا تھا۔ صاحب نہ جانے کہاں چلا گیا تھا۔ بنگلے میں ایک ریفوجی خاندان آبسا تھا۔ باہر نوکروں کے کوارٹروں میں سے ایک کوٹھڑی میں سکھو بائی رہنے لگی تھی۔ فلومینا خاصی لمبی ہوگئی تھی۔ پٹو اور وہ ماہم کے قریب ایک یتیم خانے میں پڑھنے جاتے تھے۔
جیسے ہی سکھوبائی کو میرے آنے کی خبر ملی فوراً ہاتھ میں دوچار مونگنے کی پھلیاں لیے آن دھمکی۔
’’کیسا ہے بائی؟‘‘ اس نے رسماً میرے گھٹنے دبا کر پوچھا۔
’’تم کیسا ہے۔۔۔ صاحب کہاں ہے تمہارا؟ چلا گیا نا لندہن۔‘‘
’’نئیں بائی‘‘، سکھوبائی کا منہ سوکھ گیا۔ ’’ہم بولا بھی جانے کو پر نئیں گیا۔‘‘ اس کا نوکری بھی کھلاس ہوگیا تھا۔ آرڈر بھی آیا پر نئیں گیا۔‘‘ پھر وہ گیا کہاں؟‘‘
’’ہسپتال میں!‘‘
’’کیوں کیا ہوگیا؟‘‘
’’ڈاکٹر لوگ بولتا۔۔۔ کہ دارو بہت پیا۔ اس کے کارن مستک پھر گیا۔ ادھر پاگل صاحب کا ہسپتل ہے۔ اچا، ایک دم فرسٹ کلاس ادھر اس کو ڈالا۔
’’مگر وہ تو واپس جانے والا تھا۔‘‘
’’کتنا سب لوگ بولا، ہم بھی بولا۔۔۔ بابا چلا جاؤ‘‘، سکھو بائی رو پڑیں۔ ’’پن نہیں۔ ہم کو بولا سکھو ڈالنگ تیرے کو چھوڑ کر نہیں جائے گا۔‘‘
نہ جانے سکھو بائی کو روتے دیکھ کر مجھے کیا ہوگیا۔ میں بالکل بھول گئی کہ صاحب ایک غاصب قوم کا فرد ہے جس نے فوج میں بھرتی ہو کر میرے ملک کی غلامی کی زنجیروں کو چوہیرا کر دیا تھا۔ جس نے میرے ہموطن بچوں پر گولیا چلائی تھیں۔ نہتے لوگوں پر مشین گنوں سے آگ برسائی تھی۔ برٹش سامراج کے ان گھناؤنے کل پرزوں میں سے تھا جس نے میرے دیس کے جانبازوں کا خون سڑکوں پر بہایا تھا۔ صرف اس قصور میں کہ وہ اپنا حق مانگتے تھے۔ مگر مجھے اس وقت کچھ یاد نہ رہا۔ سوائے اس کے کہ سکھوبائی کا ’مرد‘ پاگل خانہ میں تھا۔ مجھے اپنے جذباتی ہونے پر بہت دک تھا کیونکہ ایک قوم پرست کو جابر قوم کے ایک فرد سے قطعی کسی قسم کی ہمدردی یا لگاؤ نہ محسوس کرنا چاہیے۔
میں ہی نہیں سب بھول چکے تھے۔ محلے کے سارے لونڈے نیلی آنکھوں والی فلومینا پر بغیر یہ سوچے سمجھے فدا تھے کہ وہ کیڑا جس سے اس کی ہستی وجود میں آئی سفید تھا یا کالا۔ جب وہ اسکول سے لوٹتی تو کتنی ہی ٹھنڈی سانسیں اس کے جلو میں ہوتیں۔ کتنی ہی نگاہیں اس کے پاؤں تلے بچھائی جاتیں۔ کسی لونڈے کو اس کے عشق میں سردھنتے وقت قطعی یہ یاد نہ رہتا تھا کہ یہ اسی سفید درندے کی لڑکی ہے جس نے ہری نواس کے ناکے پر چودہ برس کے بچے کو خون میں ڈبو مارا تھا۔ جس نے باہم چرچ کے سامنے نہتی عورتوں پر گولیاں چلائی تھیں۔ کیونکہ وہ نعرے لگا رہی تھیں، ’’ہندوستان چھوڑ دو۔‘‘
جس نے چوپاٹی کی ریت میں جوانوں کا خون نچوڑا تھا اور سکریٹریٹ کے سامنے سوکھے مارے ننگے بھوکے لڑکوں کے جلوس کو مشین گنوں سے درہم برہم کیا تھا۔ وہ سب بھول چکے تھے۔ بس اتنا یاد تھا کہ کندنی گالوں اور نیلی آنکھوں والی چھوکری کی کمر میں غضب کی لچک ہے موٹے موٹے گدرائے ہوئے ہونٹوں کی جنبش میں موتی رلتے ہیں۔
ایک دن سکھوبائی جھولی میں پرساد لیے بھاگی بھاگی آئی۔
’’ہمارا صاحب آگیا‘‘، ان کی آواز لرز رہی تھی۔ آنکھوں میں موتی چمک رہے تھے۔ کتنا پیار تھا۔ اس لفظ ’ہمارا‘ میں۔ زندگی میں ایک بار کسی کو یوں جی جان کا دم نچوڑ کر اپنا کہنے کا موقعہ مل جائے تو پھر جنم لینے کا مقصد پورا ہوجاتا ہے۔
’’اچھا ہوگیا؟‘‘
’’ارے بائی پاگل کبھی تھا؟ ایسا یج صاحب لوگ پکڑ کر لے گیا تھا۔ بھاگ آیا۔۔۔‘‘ وہ رازداری کے ہجے میں بولیں۔
میں ڈر گئی کہ لو بھئی ایک تو ہارا ہوا انگریز اوپر سے پاگل خانہ سے بھاگا ہو۔ کس کو رپورٹ کروں۔ بمبئی کی پولیس کے لفڑے میں کون پڑتا پھرے۔ ہوا کرے پاگل میری بلا سے۔ کون مجھے اس سے میل جول بڑھانا ہے۔
لیکن میرا خیال غلط نکلا۔ مجھے میل جول بڑھانا پڑا۔ میرے دل میں بھی کھدبد ہو رہی تھی کہ کسی طرح پوچھوں جیکسن انگلستان اپنے بیوی کے پاس کیوں نہیں جاتا۔ بھلا ایسا بھی کوئی انسان ہوگا جو فردوس کو چھوڑ کر یوں ایک کھولی میں پڑا رہے اور ایک دن مجھے موقع مل ہی گیا۔ کچھ دن تک تو وہ کوٹھڑی سے باہر ہی نہ نکلا۔ پھر آہستہ آہستہ نکل کر چوکھٹ پر بیٹھنے لگا۔ وہ سوکھ کر چرخ ہوگیا تھا۔ اس کا رنگ جو پہلے بندر کی طرح لال چقندر تھا جھلس کر کتھی ہوگیا تھا۔ بال سفید ہوگئے تھے۔ چار خانہ کی لنگی باندھے میلا بنیان چڑھائے وہ بالکل ہندوستان کی گلیوں میں گھومتے پرانے گورکھوں جیسا لگتا تھا۔ اس کی نقلی اور اصلی آنکھ میں فرق معلوم ہونے لگا تھا۔ شیشہ تو اب بھی ویسا ہی چمکدار، شفاف اور ’انگریز‘ تھا۔ مگر اصلی آنکھ گدلی بے رونق ہوکر ذرا دب گئی۔ عموماً وہ شیشے والی آنکھ کے بغیر ہی گھوما کرتا تھا۔ ایک دن میں نے کھڑکی میں سے دیکھا تو وہ جامن کے پیڑ کے نیچے کھڑا کھوئے کھوئے انداز میں کبھی زمین سے کوئی کنکر اٹھاتا، اسے بچوں کی طرح دیکھ کر مسکراتا پھر پوری طاقت سے اسے دور پھینک دیتا۔ مجھے دیکھ کر وہ مسکرانے اور سرہلانے لگا۔
’’کیسے طبیعت ہے صاحب؟‘‘ تجسس نے اکسایا تو میں نے پوچھا۔
’’اچھا ہے۔ اچھا ہے‘‘، وہ مسکراکر شکریہ ادا کرنے لگا۔
میں نے باہر جاکر ادھر ادھر کی باتیں کرنا شروع کیں۔ جلد ہی وہ مجھ سے باتیں کرنے میں بے تکلفی سی محسوس کرنے لگا۔ پھر ایک دن میں نے موقع پاکر کریدنا شروع کیا۔ کئی دن کی جانفشانی کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک شریف زادی کا ناجائز بیٹا تھا۔ اس کے نانا نے ایک کسان کو کچھ روپیہ دے دلا کر پالنے پر راضی کرلیا۔ مگر یہ معاملہ اس صفائی سے کیا گیا کہ اس کسان کو بھی پتہ نہ چل سکا کہ وہ کس خاندان کا ہے۔ کسان بڑا جابر تھا۔ اس کے کئی بیٹے تھے جو جیکسن کو طرح طرح سے زک پہنچایا کرتے تھے۔ روز پٹائی ہوتی تھی۔ مگر کھانے کو اچھاملتا تھا۔ اس نے بارہ تیرہ برس کی عمر سے بھاگنے کی کوشش کرنا شروع کی۔ تین چار سال کی مستقل کوششوں کے بعد وہ لڑھکتا پڑھکتا دھکے کھاتا لندن پہنچا۔ وہاں اس نے دنیا بھر کے پیشے باری باری اختیار کیے۔ مگر اس عرصہ میں وہ اتنا ڈھیت مکار اور خود سر ہوگیا تھا کہ دودن سے زیادہ کوئی نوکری نہ رہتی۔
وہ شکل و صورت کاوجہیہ تھا۔ اس لیے لڑکیوں میں کافی ہردلعزیزتھا۔ ڈار تھی اس کی بیوی بڑے نک چڑھے خاندان کی لڑکی تھی۔ کم رو اور کم ظرف بھی تھی۔ اس کا باپ بار سوخ آدمی تھا۔ جیکسن نے سوچا اس خانہ بدوشی کی زندگی میں بڑے جھنجھٹ ہیں۔ آئے دن پولیس اور کچہری سے واسطہ پڑتا ہے۔ کیوں نہ ڈار تھی سے شادی کر کے عاقبت سنوار لی جائے۔
ڈار تھی اس کے باپ کی بیٹی اس کی دسترس سے باہر تھی وہ اونچی سوسائٹی میں اٹھنے بیٹھنے کی عادی تھی مگر جیکسن کی اس وقت دونوں آنکھیں کھری اصلی تھیں یہ تو جب ڈار تھی سے لڑ کر وہ شراب خانوں کا ہو رہا، وہاں کسی سے مار پیٹ میں آنکھ جاتی رہی۔ جب تک اس کی صرف بڑی بیٹی پیدا ہوئی تھی۔
’’ہاں تم نے ڈار تھی کو کیسے گھیر کر پھانسا۔۔۔؟‘‘ میں نے اور کریدا۔
’’جب میری دونوں آنکھیں سلامت تھیں‘‘، جیکسن مسکرایا۔
کسی نہ کسی طرح ڈار تھی ہتھے چڑھ گئی۔ کم بخت کنواری بھی نہیں تھی مگر ایسے فیل مچائے کہ باپ کی مخالفت کے باوجود شادی کرلی۔ شاید وہ اپنی شادی سے نا امید ہوچکی تھی اور خود اسکی گھات میں تھی۔
باپ نے بھی لڑکی کی مجبوریوں کو سمجھ لیا۔ نیز بیوی کے روز روز کے تقاضوں سے مجبور ہوکر اسے ہندوستان بھجوا دیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہر انگریز ہندوستان کے سر منڈھ دیا جاتا تھا۔ خواہ وہاں وہ جوتے گانٹھتا ہو یہاں آتے ہی صاحب بن بیٹھتا تھا۔
جیکسن نے حد کردی۔ وہ ہندوستان میں بھی ویسا ہی نکمااور لاابالی ثابت ہوا۔ سب سے بڑی خرابی جو اس میں تھی وہ اس کا چھچھورا پن تھا۔ بجائے صاحب بہادروں کی طرح رعب داب سے رہنے کے وہ نہایت بھونڈے پن سے نیٹو لوگوں میں گھل مل جاتا تھا۔ جب وہ بستی کے علاقے میں جنگلات کے محکمہ میں تعینات ہوا تو وہ کلب کے بجائے نہ جانے کن چنڈوخانوں میں گھومتا پھرتا تھا۔
آس پاس صرف چند انگریزوں کے بنگلے تھے۔ بدقسمتی سے زیادہ تر لوگ معمر اور بردبار تھے۔ سنسان کلب میں جہاں ہندوستانیوں اور کتوں کو آنے کی اجازت نہ تھی۔ زیادہ تر الو بولا کرتا تھا۔ سب ہی افسروں کی بیویاں اپنے وطن میں رہتی تھیں۔ جب کبھی کسی افسر کی بیوی آتی تو وہ اسے بجائے جنگل میں لانے کے خود چھٹی لے کر شملہ یا نینی تال چلا جاتا۔ پھر بیوی ہندوستان کی غلاظت سے عاجز آکر واپس چلی جاتی۔ اور اس کا صاحب ٹھنڈی آہیں بھرتا بیوی کی حسین یاد لیے لوٹ آتا۔ صاحب لوگ ویسے اپنا کام نیٹو عورتوں سے چلا لیا کرتے تھے۔ اس قسم کے تعلقات سے کسی کا بھی نقصان نہیں ہوتا تھا۔ حساب بھی سستا رہتا تھا۔ ہندوستان کا بھی فائدہ تھا۔ اس میں ایک تو ان سے پیدا ہونے والی اولاد بادامی اور کبھی خاصی گوری پیدا ہوتی تھی، اور پھر ان کے بارسوخ باپ ان کے لیے یتیم خانے اور اسکول بھی کھول دیتے تھے۔ سرکاری خرچہ پر ان کی دوسرے ہندوستان سے بہتر تعلیم و تربیت ہوتی تھی۔ یہ اینگلوانڈین خوش شکل طبقہ انگریزوں سے بس دوسرے نمبر پر تھا۔ لڑکے ریلوے، جنگلات اور نیوی میں بڑی آسانی سے کھپ جاتے تھے۔ جو معمولی شکل کی لڑکیاں ہوتیں انہیں ہندوستانی لڑکیوں کے مقابلے میں بہتر نوکریاں مل جاتیں اور وہ اسکولوں، دفتروں اور ہسپتالوں کی رونق بڑھاتیں۔ جو زیادہ حسین ہوتیں وہ بڑے بڑے شہروں کے مغرب زدہ بازار حسن میں بڑی کامیاب ثابت ہوتی تھیں۔
جیکسن صاحب جب ہندوستان آیا تو اس میں کانے شخص کے تمام عیب بڑی افراط سے موجود تھے۔ شراب اس کی عادت ثانی بن چکی تھی۔ ہر جگہ اس کی کسی نہ کسی سے چخ چل جاتی اور اس کا تبادلہ ہو جاتا۔ جنگلات سے ہٹا کر اسے پولیس میں بھیج دیا گیا۔ اس کا اسے بہت ملال تھا۔ کیونکہ وہاں ایک پہاڑن پر اس کا بے طرح دل آگیا تھا۔ جبل پور پہنچ کر وہ اسے ضرور بلوالیتا مگر وہاں سے ایک نٹنی سے عشق ہوگیا۔ ایسا شدید عشق کہ اس کی بیوی ساری چھٹیاں نینی تال میں گزار کر واپس چلی گئی اور وہ نہ گیا۔ کام کی زیادتی کا بہانہ کرتا رہا۔ چھٹی نہ ملنے کا عذر کیا۔ مگر ڈار تھی کے ڈیڈی کے کتنے ہی دوست تھے جن کی رسوخ کی وجہ سے اسے زبردستی چھٹی دلوائی گئی۔ جب وہ نینی تال پہنچا تو اس کا دل وہاں قطعی نہ لگا۔ ایک تو ڈار تھی اس کی جدائی میں اس پر بے طرح عاشق ہوگئی تھی اور چاہتی تھی دوبارہ ہنی مون منایا جائے۔ دوسری طرف اسے جیکسن کے طریقہ عشق سے بڑی وحشت ہوتی تھی۔ وہ اتنے دن ہندوستان میں رہ کر بالکل ہی اجنبی ہوچکا تھا۔ پہاڑن اور نٹنی دونوں نے اس کی ہندوستانی پتی ورتا استریوں کی طرح خدمت کرکے اس کا دماغ خراب کردیا تھا۔
سال میں صرف دو مہینہ کے لیے آنے والی بیوی بالکل اجنبی ہوگئی تھی۔ پھر اس کے سامنے جیکسن کو تکلفات برتنا پڑتے تھے۔
ایک دن نشہ میں اس نے کچھ پہاڑن اور نٹنی کے اندازِ محبت کا اپنی بیوی سے بھی مطالبہ کر دیا۔ وہ ایسی چراغ پا ہوئی کہ جیکسن کے چھکے چھوٹ گئے۔ اس نے بہت جرح کی بہت کریدا کہ ’’کہیں تم بھی دوسرے بے غیرت اور نیچ انگریزوں کی طرح لوکل عورتوں سے میل جول تو نہیں بڑھانے لگے ہو۔‘‘ جیکسن نے قسمیں کھائیں اور ڈار تھی کے اتنے پیار لیے کہ وہ اس کی پارسائی کی قائل ہوگئی۔ اسے بڑا ترس آیا اور بڑے اصرار سے وہ اسے جبلپور لے آیا۔ مگر وہ وہاں کی مکھیوں اور گرمی سے بوکھلا کر نیم پاگل ہوگئی۔ اور تو سب جھیل جاتی مگر جب اس کے غسل خانے میں دو موئی نکلی تو وہ اسی وقت سامان باندھنے لگی۔ جیکسن نے بہت سمجھایا کہ یہ سانپ نہیں اور کاٹتا بھی نہیں مگر اس نے ایک نہ سنی اور دوسرے دن دہلی چلی گئی۔
وہاں سے اس نے زور لگا کر اس کا تبادلہ بمبئی کروا دیا۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے جب دوسری جنگ شروع ہو چکی تھی۔ نٹنی کی جدائی اور ڈار تھی کا بمبئی میں مستقل قیام سوہان روح بن گیا۔ سکھوبائی بچوں کی آیا کا ہاتھ بٹانے کے لیے رکھی گئی تھی۔ مگر جب بارش سے جی چھوڑ کر ڈار تھی مع بچوں کے وطن گئی تو جیکسن کی نظر عنایت اس پر پڑی۔ اف کس قدر الجھی ہوئی داستان تھی صاحب کی۔ کیونکہ سکھو بائی اصل میں گنپت ہیڈ بیرے کی رکھیلی عورت تھی وہ اسے پون پل سے پھسلا لایا تھا۔ ویسے بیوی بچوں والا آدمی تھا۔ سکھوبائی اپنی اس نوکری سے جس میں زمین پونچھنے، برتن دھونے کے علاوہ گنپت کے ناز اٹھانا بھی شامل تھا۔ کافی مطمئن تھی۔
گنپت اسے کبھی اپنے کسی دوست کو بھی ازراہ ِکرم یا قرضہ کے عوض میں دے دیا کرتا تھا۔ مگر بڑی چالاکی سے کہ بہت دن تک سکھوبائی کو بھی پتہ نہ چلا۔ وہ پینے سے تو پہلے ہی کچھ واقف تھی۔ گنپت کی صحبت میں پابندی سے شام کو ٹھرا چڑھانے لگی۔ گنپت گاہک کو اپنی کوٹھڑی میں لے آتا۔ جیکسن کا ڈر تو کسی کو تھا نہیں۔ سب کام کاج چھوڑ کر نوکر مزے سے جوا کھیلتے، ٹھرا پیتے بلکہ سارے شیواجی پارک کے غنڈے ڈار تھی کے جاتے ہی صاحب کے بنگلے پر ٹوٹ پڑتے اور رات گئے تک ہلڑ مچا رہتا۔
شراب جب خوب چڑھ جاتی ہے تو وہ سکھوبائی کو اس آدمی کے پاس چھوڑ کر کسی بہانے سے چلا جاتا۔ سکھوبائی سمجھتی کہ وہ گنپت کو الو بنارہی ہے اور آہستہ آہستہ وہ صاحب کی خدمت کرتے کرتے بیوی کی عوضی بھی بھگتنے لگی۔ اسی طرح گنپت کے چکر سے چھٹی ملی۔ وہ کم بخت الٹا اس کی ساری تنخواہ اینٹھ لیا کرتا تھا۔ ان ہی دنوں گنپت فوج میں سے بیرے کی حیثیت سے مڈل ایسٹ چلا گیا اور سکھو بائی مستقل میم صاحب کی جگہ جم گئی۔ بس جب چھٹیوں میں میم صاحب آتی تو وہ اپنی کھولی میں منتقل ہوجاتی۔ اور جب وہ اپنی پتلی کوک دار آواز میں۔۔۔ ’’آیو۔ دود۔۔۔‘‘ پکارتیں تو وہ فوراً سب کام چھوڑ چھاڑ کے ’’یس میم صاحب‘‘، کہہ کر لپکتی۔ یوں تو میم صاحب سے سیکھ کر وہ اپنے آپ کو بڑی انگریزی دان سمجھنے لگی تھی۔ انگریزی زبان میں یس۔ نو۔ ڈیم فول، سوآین کے سوا اور ہے ہی کیا؟‘‘
حاکموں کا ان چند الفاظ میں ہی کام نکل جاتا ہے۔ لمبے چورے ادبی جملوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔ تانگہ کے گھوڑے کو ٹخ ٹخ اور چابک کی زبان ہی کافی ہوتی ہے۔ مگر سکھو بائی کایہ نہیں معلوم تھا کہ انگریزی کی گاڑی میں جتا ہوا مریل گھوڑا الف ہو کر گاڑی لوٹ چکا تھا اور اب اس کی لگا میں دوسرے ہاتھوں میں تھیں اس کی دنیا بڑی محدود تھی وہ خود اس کے دو بچے اور اس کا ’مرد‘۔
جب میم صاحب ہندوستان آیا کرتی تھی۔ جب بھی سکھو بائی بری فراخدلی سے عیوضی چھوڑ کر پھر نینی کے ساتھ نیچے کام کرنے لگتی۔ اسے میم صاحب سے قطعی کوئی حسد نہیں تھا۔ میم صاحب مغربی حسن کا نمونہ ہو تو ہو۔ ہندوستانی معیار حسن کے ترازو میں اسے تولا جاتا تو جواب صفر ملتا۔ اس کی جلد کھرچے ہوئے شلغم کی طرح کچی کچی تھی۔ جیسے اسے پوری طرح پکنے سے پہلے ڈال سے توڑ لیا گیا ہو۔ یا ٹھنڈی بے جان اندھیری قبر میں برسوں دفن رکھنے کے بعد نکالا ہو۔ اس کے چھدرے میلی چاندی کے رنگ کے بال بالکل بوڑھیوں کے بالوں کی طرح لگتے تھے۔ اس لیے سکھوبائی کے درجے کے لوگ اسے بڑھیا سمجھتے تھے یا پھر سورج مکھی جسے ہندوستان میں بڑا قابل رحم سمجھا جاتا ہے۔ جب وہ منھ دھوئے ہوتی تو اس کی پنسل سے بنائی ہوئی بھنویں غائب ہوتیں۔ چہرہ ایسا معلوم ہوتا گویا کسی نے تصویر کو سستے ربڑ سے بگاڑ دیا ہو۔
پھر ڈار تھی سرد تھی، اجنبی تھی۔ جیکسن کا وجود اس کے لیے ایک گھناؤنی گالی تھا۔ وہ اپنے کو نہایت بدنصیب اور مظلوم سمجھتی تھی۔ اور شادی کا ناکامیاب بنانے میں حق بجانب تھی۔ خواہ جیکسن کتنے ہی بلند عہدے پر پہنچ جاتا وہ اس پر فخر نہیں کرسکتی تھی، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ یہ سارے عہدے خود ڈار تھی کے باپ کے دلائے ہوئے ہیں جو کسی بھی احمق کو دلا دیے جاتے تو وہ آسمانوں کو چھو لیتا۔
اس کے برخلاف لکھوبائی اپنی تھی۔۔۔ گرماگرم تھی۔ اس نے پون پل پر الاؤ کی طرح بھڑک کر ہزاروں کے ہاتھ تاپنے کا سامان مہیا کیا تھا۔ وہ گنپت کی رکھیلی تھی جو اسے پرانی قمیض کی طرح دوستوں کو ادھار دے دیا کرتا تھا۔ اس کے لیے جیکسن صاحب دیوتا تھا۔ شرافت کا اوتار تھا۔ اس کے اور گنپت کے پیار کے طریقے میں کتنا فرق تھا، گنپت تو اسے منہ کا مزہ بدلنے کے لیے چبا چبا کر تھوکتا۔ اور صاحب ایک مجبور ضرورت مند کی طرح اسے امرت سمجھتا۔ اس کے پیارمیں ایک بچے جیسی لاچاری تھی۔
جب انگریز اپنا ٹاٹ پلان لے کر چلے گئے تو وہ نہیں گیا۔ ڈار تھی نے اسے بلانے کے سارے جتن کر ڈالے۔ دھمکیاں دیں مگر اس نے استعفی دے دیا اور نہیں گیا۔
’’صاحب تمہیں اپنے بچے بھی یاد نہیں آتے؟‘‘ میں نے ایک دن اس سے پوچھا۔
’’بہت یاد آتے ہیں۔ فلو شام کو دیر سے آتی ہے او رپٹو لونڈوں کے ساتھ کھیلنے چلا جاتا ہے۔ میں چاہتا ہوں وہ کبھی میرے پاس بھی بیٹھیں‘‘، وہ اڑن گھائیاں بنانے لگا۔
’’پٹو اور فلو مینا نہیں۔ استھر اور لذا‘‘، میں نے بھی ڈھٹائی لادلی۔
’’نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔‘‘ وہ ہنس کر سر ہلانے لگا۔ ’’پلے صرف کتیا سے مانوس ہوتے ہیں اس کتے کو نہیں پہچانتے جو ان کے وجود میں ساجھے دار ہوتا ہے‘‘، اس نے اپنی اصلی آنکھ مار کر کہا۔
’’یہ جاتا کیوں نہیں یہاں پڑا سڑ رہا ہے۔‘‘ یہ میں ہی نہیں آس پاس کے سب ہی لوگوں کو بے چینی سی ہوتی تھی۔
’’جاسوس ہے، اسے جان بوجھ کر یہاں رکھا گیا ہے تاکہ یہ ملک میں دوبارہ برطانوی راج کو لانے میں مدد دے‘‘ کچھ لوگ یوں بھی سوچتے۔ گلی کے لونڈے جب وہ دکھائی دیتا، یہی پوچھتے۔
’’صاحب ولایت کب جائے گا؟‘‘
’’صاحب کوئٹ انڈیا ہے کونئیں کرتا؟‘‘
’’ہندوستان چھوڑ دو صاحب!‘‘
’’انگریزی چھورا چلا گیا۔‘‘
’’وہ گورا گورا چلا گیا۔‘‘
’’پھر تم کائے کو نہیں جاتا؟ سڑک پر آوارہ گھومنے والے لونڈے اس کے پیچھے دھیری لگاتے آواز کستے۔‘‘
’’ہوں۔۔۔ ہونہوں۔۔۔ جائے گا۔۔۔ جائے گا بابا‘‘، وہ سرہلا کر مسکراتا اورا پنی کھولی میں چلا جاتا۔
تب مجھے اس کے اوپر بڑا ترس آتا۔ کہاں ہیں دنیا کے رکھوالے جوہر کمزور ملک کو تہذیب سکھاتے پھرتے ہیں۔ ننگوں کو پتلون اور فراکیں پہناتے پھرتے ہیں۔ اپنے سفید خون کی برتری کا ڈھول پیٹتے ہیں۔ ان کا ہی خون ہے جو جیکسن کے روپ میں کتنا ننگا ہوچکا ہے۔ مگر اسے کوئی مشنری ڈھانکنے نہیں آتا۔
اور جب گلی کے لفنگے تھک ہار کر چلے جاتے تو وہ اپنی کھولی کے سامنے بیٹھ کر بیڑی پیا کرتا۔ اس کی اکلوتی آنکھ دور افق پر اس ملک کی سرحدوں کو تلاش کرتی جہاں نہ کوئی گورا ہے۔ نہ کالا نہ کوئی زبردستی جا سکتا ہے۔ نہ آسکتا ہے اور نہ وہاں بدکار مائیں اپنے ناجائز بچوں کو تیری میری چوکھٹ پر جن کو خود اپنی باوقار دنیا بسا لیتی ہیں۔
سکھوبائی آس پاس کے گھروں میں کمائین کا کام کرتی۔۔۔ اچھا خاصا کما لیتی۔ اس کے علاوہ وہ بانس کی ڈلیاں، میز کرسی وغیرہ بنا لیتی تھی۔ اس ذریعہ سے کچھ آمدنی ہو جاتی۔ جیکسن بھی اگر نشے میں نہ ہوتا تو الٹی سیدھی بے پیندے کی ٹوکریاں بنایا کرتا۔ شام کو سکھوبائی اس کے لیے ایک ٹھرے کا ادھا لا دیتی جو وہ فوراً چڑھا جاتا اور پھر اس سے لڑنے لگتا۔ ایک رات اس نے نہ جانے کہاں سے ٹھرے کی پوری بوتل حاصل کرلی اور ساری رات پیتا رہا۔ صبح دم وہیں کھولی کے آگے پڑ کر سوگیا۔ فلومینا اور پٹو اس کے اوپر سے پھلانگ کر اسکول چلے گئے۔ سکھوبائی بھی تھوڑی دیر اسے گالیاں دے کر چلی گئی۔ دوپہر تک وہ وہیں پڑا رہا۔ شام کو جب بچے آئے تو وہ دیوار سے پیٹھ لگائے بیٹھا تھا۔ اسے شدید بخار تھا جو دوسرے دن بڑھ کر سرسام کی صورت اختیار کر گیا۔
ساری رات وہ نہ جانے کیا بّراتا رہا۔ نہ جانے کسے کسے یاد کرتا رہا، شاید اپنی ماں کو جسے اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ جو اس وقت کسی شاندان ضیافت میں شریک ’اخلاقی اصلاح بندی‘ پر کر رہی ہوگی۔ یا وہ باپ یاد آرہا ہو جس نے نسل چلانے والے سانڈ کی خدمت اداکرنے کے بعد اسے اپنے جسم سے بہی ہوئی غلاظت سے زیادہ اہمیت نہ دی۔ اور جو اس وقت کسی دوسرے محکوم ملک میں بیٹھا قومی اقتدار قائم کرنے کے منصوبے بنا رہا ہوگا۔ یا ڈار تھی کے طعنوں بھرے احسان یاد آرہے تھے۔ جو بے رحم کسان کے ہنٹروں کی طرح ساری عمر اس کے احساسات پر برستے رہے یا شاید وہ گولیاں جو اس کی مشین گن سے نکل کر بے گناہوں کے سینوں کے پار ہوئیں اور آج پلٹ کر اسی کی روح کو ڈس رہی تھیں۔ وہ رات بھر چلاتا رہا سر پٹختا رہا۔ سینے کی دھوکنی چلتی رہی۔ در و دیوار نے پکار پکار کر کہا، ’’تیرا کوئی ملک نہیں۔۔۔ کوئی نسل نہیں۔۔۔ کوئی رنگ نہیں۔‘‘
’’تیرا ملک اور نسل سکھوبائی ہے جس نے تجھے بے پناہ پیار دیا کیونکہ وہ بھی اپنے دیس میں غریب الوطن ہے۔ بالکل تیری طرح۔ ان کروڑوں انسانوں کی طرح جو دنیا کے ہر کونے میں پیدا ہو جاتے ہیں۔ نہ ان کی ولادت پر شادیانے بجتے ہیں نہ موت پر ماتم ہوتے ہیں!‘‘
’’پوپھٹ رہی تھی۔ ملوں کی چمنیاں دھواں اگل رہی تھیں اور مزدوروں کی قطاروں کو نگل رہی تھیں۔ تھکی ہاری رنڈیاں اپنے رات بھر کے خریداروں کے چنگل سے پنڈا چھڑا کر انہیں رخصت کر رہی تھیں۔
’’ہندوستان چھوڑ۔‘‘
’’کوئٹ انڈیا۔‘‘
طعن اور نفرت میں ڈوبی آوازیں اس کے ذہن پر ہتھوڑوں کی طرح پڑ رہی تھیں۔ اس نے ایک بار حسرت سے اپنی عورت کی طرف دیکھا جو وہیں پٹی پر سر رکھ کر سوگئی تھی۔ فلو منا رسوئی کے دروازے میں ٹاٹ کے ٹکڑے پر سو رہی تھی۔ پٹو اس کی کمر میں منہ گھسائے پڑا تھا۔ کلیجے میں ایک ہوک سی اٹھی اور اس کی اصلی آنکھ سے ایک آنسو ٹپک کر میلی دری میں جذب ہوگیا۔
برطانوی راج کی مٹتی ہوئی نشانی ایرک ولیم جیکسن نے ہندوستان چھوڑ دیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.