ہو دل لگی میں بھی دل کی لگی تو اچھا ہے
ہو دل لگی میں بھی دل کی لگی تو اچھا ہے
لگا ہو کام سے گر آدمی تو اچھا ہے
اندھیری شب میں غنیمت ہے اپنی تابش دل
حصار جاں میں رہے روشنی تو اچھا ہے
شجر میں زیست کے ہے شاخ غم ثمر آور
جو ان رتوں میں پھلے شاعری تو اچھا ہے
یہ ہم سے ڈوبتے سورج کے رنگ کہتے ہیں
زوال میں بھی ہو کچھ دل کشی تو اچھا ہے
سزا ضمیر کی چہرہ بگاڑ دیتی ہے
خود اپنی جون میں ہو آدمی تو اچھا ہے
نہیں جو لذت دنیا نشاط غم ہی سہی
ملے جو یک دو نفس سر خوشی تو اچھا ہے
سفر میں ایک سے دو ہوں تو راہ آساں ہو
چلے جو ساتھ مرے بیکسی تو اچھا ہے
دیار دل میں مہکتے ہیں پھول یادوں کے
رچے بسے جو ابھی زندگی تو اچھا ہے
چلو جو کچھ نہیں باقرؔ متاع درد تو ہے
اسے سنبھال کے رکھو ابھی تو اچھا ہے
- کتاب : Kulliyat-e-Baqir (Pg. 454)
- Author : Sajjad Baqir Rizvi
- مطبع : Sayyed Mohammad Ali Anjum Rizvi (2010)
- اشاعت : 2010
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.