اک پل کہیں رکے تھے سفر یاد آ گیا
اک پل کہیں رکے تھے سفر یاد آ گیا
پھولوں کو ہنستا دیکھ کے گھر یاد آ گیا
تتلی کے ساتھ آئی تری یاد بھی ہمیں
رکھا ہوا کتاب میں پر یاد آ گیا
بیٹھے تھے جس کی چھاؤں میں ہم دونوں مدتوں
کیا جانے آج کیوں وہ شجر یاد آ گیا
سرحد سے کوئی آیا ہے پھر خون مانگنے
اک ماں کو اپنا لخت جگر یاد آ گیا
پھینکا تھا میں نے طنز کا پتھر کسی کی سمت
غالبؔ کی طرح اپنا ہی سر یاد آ گیا
- کتاب : Udas Lamhon Ke Mausam (Poetry) (Pg. 99)
- Author : Farooq Bakhshi
- مطبع : Modern Publishing House (2003)
- اشاعت : 2003
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.