اک تیر نہیں کیا تری مژگاں کی صفوں میں
اک تیر نہیں کیا تری مژگاں کی صفوں میں
بہہ جائیں لہو بن کے یہ حسرت ہے دلوں میں
دریا ہو تو موجوں میں کھلے اس کا سراپا
پاگل ہے ہوا چیختی پھرتی ہے بنوں میں
تیشے کی صدا میری ہی فریاد تھی گویا
میری ہی طرح تھا کوئی پتھر کی سلوں میں
یوں آج پھر اک حسرت ناکام پہ روئے
جیسے نہ تھے پہلے کبھی آزردہ دلوں میں
اب صبح سے تا شام ہے صدیوں کی مسافت
ہر لمحۂ بے قید ہے زنجیر دنوں میں
رستوں پہ امڈتا ہوا پھولوں کا سمندر
حیران ہوں کس طرح سمایا ہے گھروں میں
کھینچا تھا جنوں نے جسے دامان ہوا پر
دیکھا تو وہی شکل ہے مٹی کی تہوں میں
کیا ٹھیریں قدم دشت نوردان وفا کے
کانٹا تو نہیں پاؤں میں سودا ہے سروں میں
توصیفؔ وہ یادوں کا دھواں ہے کہ سر بزم
چہرے نظر آتے ہیں چراغوں کی لوؤں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.