اک وظیفہ ہے کسی درد کا دہرایا ہوا
اک وظیفہ ہے کسی درد کا دہرایا ہوا
جس کی زد میں ہے پہاڑوں کا دھواں آیا ہوا
یہ ترے عشق کی میقات یہ ہونی کی ادا
دھوپ کے شیشے میں اک خواب سا پھیلایا ہوا
باندھ لیتے ہیں گرہ میں اسی منظر کی دھنک
ہم نے مہمان کو کچھ دیر ہے ٹھہرایا ہوا
طائرو ابر و ہوا بھی ہیں اسی الجھن میں
کیسے دو ہونٹوں نے اک باغ ہے دہکایا ہوا
چھید ہیں عمر کی پوشاک پہ تنہائی کے
خوش نما قریوں میں ہوں آپ سے اکتایا ہوا
رات آتی ہے تو رکھ دیتی ہے پھاہا دل پر
ورنہ اس دشت کا ہر پیڑ ہے زخمایا ہوا
ہڈیاں جوڑ کے ترتیب سے اس نے عامرؔ
خواب کا لٹھا ہے اس روح کو پہنایا ہوا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.