اک زمانے سے فلک ٹھہرا ہوا لگتا ہے
اک زمانے سے فلک ٹھہرا ہوا لگتا ہے
کوئی جیتا ہے یہاں اور نہ کوئی مرتا ہے
آزمائش ہو تو کیا جانیے کس کا نکلے
دیکھنے میں تو وہ اپنا ہی کوئی لگتا ہے
موت ہی کی ہو پر امید کی صورت ہو کوئی
نا امیدی میں کہاں تک کوئی جی سکتا ہے
نقش پا ہیں جو بتاتے ہیں کہ گزرا ہے کوئی
کون گزرا ہے مگر کس کو پتا چلتا ہے
کوئی پوچھے تو بتانا نہیں آتا دل کو
بیٹھے بیٹھے کبھی روتا ہے کبھی ہنستا ہے
صبح کی آس نہ توڑو کہ جیو گے کیسے
ان ہواؤں میں ابھی ایک دیا جلتا ہے
قافلہ ایسا مقدر ہے کہ چلتا ہی نہیں
اور چلتا ہے تو پیچھے کی طرف چلتا ہے
رہ گئی برف فقط شہر کی بنیادوں میں
پھر بھی جو ذرہ ہے سورج کا اثر رکھتا ہے
ہجر نے ایسے مراحل سے گزارا ہے کہ اب
رات کا نام بھی آ جائے تو جی ڈرتا ہے
دیکھتے دیکھتے کیا ہو گیا شہرتؔ کہ وہ اب
دل میں رہتا ہے مگر دور بہت لگتا ہے
- کتاب : shab-e-aaina (Pg. 51)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.