اس قدر حوادث ہیں راستہ نہیں ملتا
اس قدر حوادث ہیں راستہ نہیں ملتا
زندگی کے مصرعوں کا قافیہ نہیں ملتا
تیرے بن پلٹ جاؤں یہ بھی اب نہیں ممکن
اور آگے بڑھنے کا حوصلہ نہیں ملتا
آپ اپنی صورت کو خود پہ آشکارا کر
شہر کی فصیلوں پر آئنہ نہیں ملتا
بے چراغ رستوں پر بے شمار جگنو تھے
پھر بھی ایک بلبل کو گھونسلہ نہیں ملتا
لوگ ملتے رہتے ہیں آج بھی ترے جیسے
تجھ سا پر کہیں کوئی با خدا نہیں ملتا
کیسا دور آیا ہے ہم سیاہ بختوں نے
صبر کر کے دیکھا ہے کچھ صلہ نہیں ملتا
منتظر نگاہوں سے آن بیٹھے چوکھٹ پر
میرے حق میں اس در سے فیصلہ نہیں ملتا
میں تو ایسے لوگوں سے دور ہی بھلے جاناں
جن سے میری سوچوں کا زاویہ نہیں ملتا
ہم سی فاختاؤں کا تم سے جنگجوؤں سے
آج بھی تو کل جیسا نظریہ نہیں ملتا
منصفی کی قیمت ہی دسترس سے باہر تھی
اس لئے فقیروں کو فیصلہ نہیں ملتا
روز بے مراد ایماں ہم تو لوٹ آتے ہیں
تم سے بات کرنے کو تخلیہ نہیں ملتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.