عشق میں تیرے جان زار حیف ہے مفت میں چلی
عشق میں تیرے جان زار حیف ہے مفت میں چلی
تو نے پر او ستم شعار اب بھی مری خبر نہ لی
کوئی بلا پھر آئے گی مفت میں جان جائے گی
پیچ میں ہم کو لائے گی زلف سیاہ بڑھ چلی
آتے ہی فصل دل پذیر بولے قفس میں ہم صفیر
جس میں ہوئے تھے ہم اسیر لو وہی پھر ہوا چلی
اے گل گلشن وفا بے ترے نیند آئے کیا
بستر خار سے سوا مجھ کو ہے فرش مخملی
خواہش جستجوئے یار حد سے بھی کچھ تھی بے شمار
بعد فنا مرا غبار ڈھونڈھ پھرا گلی گلی
دانش و طاقت و بصر بڑھ گئے سارے ہم سفر
زاد سفر کی فکر کر لگ رہی ہے چلا چلی
لاؤ پیالۂ شراب گھر کے پھر آیا ہے سحاب
اب نہیں میرے دل کو تاب باد بہار پھر چلی
اے مہ آسمان جاہ تجھ سا نہیں ہے کج کلاہ
لے کے فلک چراغ ماہ ڈھونڈھ پھرا گلی گلی
موئے سفید آ گیا دھبا خضاب کا لگا
فصل شباب بے وفا داغ فراق دے چلی
کبک کا دل ہوا فگار مور نے جاں کی نثار
تیغ خرام ناز یار چال نئی نئی چلی
بھول کے کوئی دوستو چاہے نہ ان حسینوں کو
اب یہ ڈھنڈھورا پھیر دو لکھنؤ میں گلی گلی
گو تھی اک آگ مشتعل جی تھا پر ایسا مضمحل
شمع لحد بھی مثل دل گاہ بجھی کبھی جلی
کہتا ہے شوخ تند خو تاب نہیں دماغ کو
باعث درد سر نہ ہو بوے لباس صندلی
سوگ میں اپنے زار کے یار وفا شعار کے
مہندی چھوئی نہ ہاتھ سے مسی نہ مدتوں ملی
ہجر کی شب تھی کیا غضب حد کے سہے غم و تعب
صبح وصال آئی اب جان بچی بلا ٹلی
کوئی نسیم صبح سے میری طرف سے یہ کہے
باغ مراد کی مرے کھل نہ سکی کوئی کلی
کیا ترے ہاتھ آ گیا کب کا تجھے غبار تھا
کوئے صنم سے کیوں صبا خاک مری اڑا چلی
دل ہے بس اب الم سے شق یاس سے رنگ رخ ہے فق
دیکھیں گے ہم کب اے قلقؔ آنکھوں سے مرقد علی
- Mazhar-e-Ishq
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.