اسی فتور میں کرب و بلا سے لپٹے ہوئے
اسی فتور میں کرب و بلا سے لپٹے ہوئے
تمام عمر گنوا دی انا سے لپٹے ہوئے
ابھی بھی مل نہ سکی ان کی خامشی کو زباں
یہ لوگ اب بھی ہیں صوت و صدا سے لپٹے ہوئے
ہوا کے شہر میں بس سانس لینے آتے ہیں
وگرنہ اہل زمیں ہیں خلا سے لپٹے ہوئے
ہر ایک سمت لگا ہے خموشیوں کا ہجوم
یہ کون لوگ ہیں کوہ ندا سے لپٹے ہوئے
ہنسی بھی آتی ہے ان پر ترس بھی آتا ہے
یہ نفرتوں کے پجاری خدا سے لپٹے ہوئے
ہم ابتدا ہی میں پہنچے تھے انتہا کو کبھی
اب انتہا میں بھی ہیں ابتدا سے لپٹے ہوئے
میں زندگی کے مسائل سے لڑنا چاہتا ہوں
مگر وہ ہاتھ نگار حنا سے لپٹے ہوئے
وگرنہ ختم نہ ہوتا گہن کبھی آذرؔ
اندھیرے خوف زدہ تھے ضیا سے لپٹے ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.