اتنا طلسم یاد کے چقماق میں رہا
روشن چراغ دور کسی طاق میں رہا
مخفی بھی تھا وصال کا وہ باب مختصر
کچھ دل بھی محو ہجر کے اسباق میں رہا
صحرا کے اشتراک پہ راضی تھے سب فریق
محمل کا جو فساد تھا عشاق میں رہا
مفقود ہو گیا ہے سیاق و سباق سے
جو حرف عمر سیکڑوں اوراق میں رہا
میں تھا کہ جس کے واسطے پابند عہد ہجر
وہ اور ایک ہجر کے میثاق میں رہا
اطوار اس کے دیکھ کے آتا نہیں یقیں
انساں سنا گیا ہے کہ آفاق میں رہا
خفتہ تھے دائیں بائیں کئی مار آستیں
زہراب کا اثر مرے تریاق میں رہا
تاریخ نے پسند کیا بھی کسی سبب
یا بس کہ شاہ وقت تھا اوراق میں رہا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.