جادۂ مرگ مسلسل سے گزرتا جاؤں
جادۂ مرگ مسلسل سے گزرتا جاؤں
زندگی یہ ہے کہ ہر سانس میں مرتا جاؤں
خون ہر لمحۂ موجود کا کرتا جاؤں
رنگ تصویر شب و روز میں بھرتا جاؤں
منتشر سلسلۂ غم کو تو کرتا جاؤں
ساتھ ہی ساتھ مگر خود بھی بکھرتا جاؤں
بس یوں ہی ہمسریٔ اہل جہاں ممکن ہے
دم بہ دم اپنی بلندی سے اترتا جاؤں
میں کسی منزل ہستی پہ کہاں رکتا تھا
راہ میں تم جو نہ مل جاؤ گزرتا جاؤں
عمر بھر جادۂ پر خار پہ چلنا ہوگا
دو گھڑی سایۂ گل میں بھی ٹھہرتا جاؤں
اپنی قسمت ہوں الجھتا ہی چلا جاتا ہوں
تیری تقدیر نہیں ہوں کہ سنورتا جاؤں
مد و جزر یم احساس کا پروردہ ہوں
ڈوبتا جاؤں مگر خود ہی ابھرتا جاؤں
آ ہی نکلا ہوں جو یادوں کے کھنڈر تک مخمورؔ
بھولے بسروں سے ملاقات بھی کرتا جاؤں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.