جانے ہم یہ کن گلیوں میں خاک اڑا کر آ جاتے ہیں
جانے ہم یہ کن گلیوں میں خاک اڑا کر آ جاتے ہیں
عشق تو وہ ہے جس میں ناموجود میسر آ جاتے ہیں
جانے کیا باتیں کرتی ہیں دن بھر آپس میں دیواریں
دروازے پر قفل لگا کر ہم تو دفتر آ جاتے ہیں
کام مکمل کرنے سے بھی شام مکمل کب ہوتی ہے
ایک پرندہ رہ جاتا ہے باقی سب گھر آ جاتے ہیں
اپنے دل میں گیند چھپا کر ان میں شامل ہو جاتا ہوں
ڈھونڈتے ڈھونڈتے سارے بچے میرے اندر آ جاتے ہیں
میم محبت پڑھتے پڑھتے لکھتے لکھتے کاف کہانی
بیٹھے بیٹھے اس مکتب میں خاک برابر آ جاتے ہیں
روز نکل جاتے ہیں خالی گھر سے خالی دل کو لے کر
اور اپنی خالی تربت پر پھول سجا کر آ جاتے ہیں
خاک میں انگلی پھیرتے رہنا نقش بنانا وحشت لکھنا
ان وقتوں کے چند نشاں اب بھی کوزوں پر آ جاتے ہیں
نام کسی کا رٹتے رٹتے ایک گرہ سی پڑ جاتی ہے
جن کا کوئی نام نہیں وہ لوگ زباں پر آ جاتے ہیں
پھر بستر سے اٹھنے کی بھی مہلت کب ملتی ہے عادلؔ
نیند میں آتی ہیں آوازیں خواب میں لشکر آ جاتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.