جانے والے تجھے کب دیکھ سکوں بار دگر
جانے والے تجھے کب دیکھ سکوں بار دگر
روشنی آنکھ کی بہہ جائے گی آنسو بن کر
تو حصار در و دیوار لیے جائے کدھر
میرا کیا ہے کہ میں ہوں دشت بہ دل خانہ بہ سر
کون جانے مری تنہائی پسندی کیا ہے
بس ترے ذکر کا اندیشہ ترے نام کا ڈر
یوں بھی اشکوں کا دھندلکا تھا سجھائی نہ دیا
کس نے لوٹا دم رخصت سر و سامان سفر
کس نے دیکھا ہے مرا شہر خموشان حیات
دل کی وادی سے گزرنا ہے تو آہستہ گزر
رو رہا ہوں کہ ترے ساتھ ہنسا تھا برسوں
ہنس رہا ہوں کہ کوئی دیکھ نہ لے دیدۂ تر
یہ مری زخم نصیبی یہ تری حیرانی
میں نے تیرے ہی اشارہ پہ تو ڈالی تھی سپر
ٹوٹ جائے گا نشہ دیکھ کوئی نام نہ لے
آنکھ بھر آئے گی اس طرح مرا جام نہ بھر
کوئی گم گشتہ ہر آغاز سفر سے پہلے
چوم لیتا ہے تری یاد کا بھاری پتھر
میں نے ہر رات یہی سوچ کے آنسو پونچھے
منہ دکھانا بھی ہے دنیا کو بہ ہنگام سحر
شاذؔ کو صبر عطا کر کے بڑا کام کیا
اس نے کیا مانگا تھا کیا پایا ہے اے رب ہنر
- کتاب : Kulliyat-e- Shaz Tamkanat (Pg. 160)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.