جاتی ہے دھوپ اجلے پروں کو سمیٹ کے
جاتی ہے دھوپ اجلے پروں کو سمیٹ کے
زخموں کو اب گنوں گا میں بستر پہ لیٹ کے
میں ہاتھ کی لکیریں مٹانے پہ ہوں بضد
گو جانتا ہوں نقش نہیں یہ سلیٹ کے
دنیا کو کچھ خبر نہیں کیا حادثہ ہوا
پھینکا تھا اس نے سنگ گلوں میں لپیٹ کے
فوارے کی طرح نہ اگل دے ہر ایک بات
کم کم وہ بولتے ہیں جو گہرے ہیں پیٹ کے
اک نقرئی کھنک کے سوا کیا ملا شکیبؔ
ٹکڑے یہ مجھ سے کہتے ہیں ٹوٹی پلیٹ کے
- کتاب : Kulliyat Shakeb Jamali (Pg. 393)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.