جب خیریت سے رات اندھیری گزر گئی
جب خیریت سے رات اندھیری گزر گئی
چہرے پہ میرے صبح کی لالی بکھر گئی
باندھا ہوا ہے خود کو سمندر نے اس قدر
ہر موج سر پٹک کے ادھر سے ادھر گئی
پل بھر کی خوش نصیبی گوارہ نہیں مجھے
وہ کیا خوشی جو ہاتھ ملا کر گزر گئی
یہ کیا ہوا کہ میں تو بڑے پیار سے ملا
ترچھی نظر زمانہ کی مجھ پر ٹھہر گئی
سب مسکرا رہے ہیں ترقی کے نام پر
زندہ ہر آدمی ہے مگر روح مر گئی
شبنم نے میرے سامنے چوما تھا پیار سے
سوکھے ہوئے گلاب کی صورت نکھر گئی
کس پر یقیں کروں کسے سمجھوں میں رازداں
حشمتؔ یہ کشمکش مرے جیون میں بھر گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.