جب تک فصیل جسم کا در کھل نہ جائے گا
جب تک فصیل جسم کا در کھل نہ جائے گا
اس دل کی یورشوں کا تسلسل نہ جائے گا
خیموں سے تا فرات جو دریائے خوں ہے یہ
اس پر سے مصلحت کا کوئی پل نہ جائے گا
اس کو گماں نہیں تھا کہ عہد خزاں میں بھی
یہ ذوق نغمہ ریزئ بلبل نہ جائے گا
یہ ابر آگہی جو برستا رہا یونہی
مٹی کا یہ وجود مرا گھل نہ جائے گا
گرتا رہے گا یونہی بلاؤں کا آبشار
جب تک غبار قلب و نظر دھل نہ جائے گا
وہ شخص تو خدائی کے دعوے پہ تل گیا
اس حد پہ ہم سمجھتے تھے بالکل نہ جائے گا
بس اے نگار زیست یقیں آ گیا ہمیں
یہ تیری بے رخی یہ تامل نہ جائے گا
انجمؔ نگار زیست کو پھر چاہیئے وہی
اک سر جو خواہشوں کے عوض تل نہ جائے گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.