جہاں درکار تھی کشتی وہاں میں نے بھنور ڈالا
جہاں درکار تھی کشتی وہاں میں نے بھنور ڈالا
محبت چاہیئے تھی اس کو میں نے عشق کر ڈالا
ادھر آنکھوں میں اس کی رنج و مایوسی کے آنسو تھے
میں یہ سمجھا کیا اظہار نے میرے اثر ڈالا
کھلائے پھول نوک خار نے تیری ہتھیلی پر
یہ کیسا ہاتھ شاخ گل پہ تو نے بے خبر ڈالا
خیال آیا مجھے مٹی کو جب سونا بنانے کا
تو کر کے ریزہ ریزہ خاک میں سب اپنا زر ڈالا
رہیں آنکھیں نہ دل اب اور نہ صناعی مگر دیکھو
کہ خالی ہو کے میں نے اس کو کس خوبی سے بھر ڈالا
لگے دنیا میں دل اس کے لیے وحشت ضروری تھی
بنا کر آدمی تھوڑا سا اس میں جانور ڈالا
حیا آئی دوبارہ اس کی جانب دیکھتے اعظمؔ
کہ پہلی ہی نظر نے اس کا پیراہن کتر ڈالا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.