جیسے کشتی اور اس پر بادباں پھیلے ہوئے
جیسے کشتی اور اس پر بادباں پھیلے ہوئے
میرے سر پر اس طرح ہیں آسماں پھیلے ہوئے
چل رہے ہیں دھوپ سے تپتی ہوئی سڑکوں پہ لوگ
اور سائے سائباں در سائباں پھیلے ہوئے
دیکھیے کب تک رہے تنہا پرندے کی اڑان
ہیں سمندر ہی سمندر بے کراں پھیلے ہوئے
جاگتی آنکھوں کے خواب اور تیرے بالوں کے گلاب
میرے بستر پر ہیں اب بھی میری جاں پھیلے ہوئے
سانحہ یہ ہے کہ اب تک واقعہ کوئی نہیں
تذکرے ہیں داستاں در داستاں پھیلے ہوئے
میں تو ساری عمر اس کی سمت ہی چلتا رہا
فاصلے ہیں پھر بھی زلفیؔ درمیاں پھیلے ہوئے
- کتاب : Funoon (Monthly) (Pg. 242)
- Author : Ahmad Nadeem Qasmi
- مطبع : 4 Maklood Road, Lahore (25Edition Nov. Dec. 1986)
- اشاعت : 25Edition Nov. Dec. 1986
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.