جوانی کی امنگوں کا یہی انجام ہے شاید
جوانی کی امنگوں کا یہی انجام ہے شاید
چلے آؤ کہ وعدے کی سہانی شام ہے شاید
جو تشنہ تھا کبھی ساقی وہ تشنہ کام ہے شاید
اسی باعث تو نظم مے کدہ بدنام ہے شاید
ہنسی کے ساتھ بھی آنسو نکل آتے ہیں آنکھوں سے
خوشی تو میری قسمت میں برائے نام ہے شاید
جسے مے خوار پی کے میکدے میں رقص کرتے ہیں
تری آنکھوں کی مستی ساقیٔ گلفام ہے شاید
اڑائی شمع نے جب خاک پروانہ تو میں سمجھا
محبت کرنے والوں کا یہی انجام ہے شاید
جو اب تک میکشوں کے پاس مدت سے نہیں آئی
ابھی گردش میں خود ہی گردش ایام ہے شاید
میں دانستہ اب ان کے سامنے خاموش ہوں جعفرؔ
خموشی بھی مری اب مورد الزام ہے شاید
- کتاب : SAAZ-O-NAVA (Pg. 123)
- مطبع : Raghu Nath suhai ummid
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.