جھکے سجدے میں ہم افلاک پر اٹھ کر نکل آئے
جھکے سجدے میں ہم افلاک پر اٹھ کر نکل آئے
بڑی گہرائی میں جا کر بہت اوپر نکل آئے
ارادہ تھا ذرا سی دیر آنکھیں بند کرنے کا
مگر منظر کے اندر سے کئی منظر نکل آئے
بڑی مدت رہے دیوار پر ساکت کئی پیکر
اچانک ایک دن تصویر سے باہر نکل آئے
ستم گاران شہر شر یہاں ایسا نہ ہو اک دن
شکستہ جسم کے کاندھوں پہ باغی سر نکل آئے
بتائیں کس طرح تنقید میں انصاف برتیں گے
اگر ہم آپ کے معیار سے بہتر نکل آئے
تم اڑنے لگ گئے ہو پھر گئی گزری فضاؤں میں
تمہارے جسم پر شاید پرانے پر نکل آئے
وہاں کیا گفتگو کیا بحث کا معیار ہونا ہے
ذرا سی بات پر عاصمؔ جہاں خنجر نکل آئے
- کتاب : لفظ محفوظ کرلئے جائیں (Pg. 156)
- Author :عاصم واسطی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2020)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.