جس طرف دیکھیے بازار اداسی کا ہے
جس طرف دیکھیے بازار اداسی کا ہے
شہر میں کون خریدار اداسی کا ہے
اب تو آنکھوں میں بھی آنسو نہیں آتے میرے
یہ الگ روپ مرے یار اداسی کا ہے
روح بیچاری پریشاں ہے کہاں جائے اب
اس قدر جسم پہ اب بار اداسی کا ہے
اپنے ہونے کا گماں تک نہیں ہوتا مجھ کو
جانے یہ کون سا معیار اداسی کا ہے
اب یہ احساس ہمیشہ مجھے ہوتا ہے دوست
مجھ میں اک شخص طلب گار اداسی کا ہے
آئنہ دیکھ کے معلوم ہوا ہے مجھ کو
زخم چہرے پہ بھی اس بار اداسی کا ہے
یہ اداسی مجھے تنہا نہیں رہنے دیتی
ہاں ترے بعد یہ اپکار اداسی کا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.