جسم جب محو سخن ہوں شب خاموشی سے
جسم جب محو سخن ہوں شب خاموشی سے
لفظ تو دیتے ہیں گرمیٔ ہم آغوشی سے
سخت احکام محبت ہیں کہ دوران وصال
لفظ آگے نہ بڑھیں سرحد سرگوشی سے
نشہ بڑھتا ہے ہمیں دیر میں مے نوشی کے بعد
اس کی گنجان خموشی کی نوا نوشی سے
دیکھنے ہوں کبھی معنی بھی تو پھر خاک وصال
ایک دو لفظ جلا دیتی ہے خاموشی سے
جھاڑا پوچھا تھا ابھی صبح کو ہی خانۂ یاد
شام تک اٹ گیا پھر گرد فراموشی سے
شہر کا شور پہنچتا ہی نہیں اب مجھ تک
عافیت میں ہوں محبت کی گراں گوشی سے
آبلے پاؤں کے پاپوش ہوئے آخر کار
عمر بھر جان بچائی تھی جو پا پوشی سے
لوگ بنوانے لگے ویسے ہی زخموں کے لباس
طرز نو چل گئی احساسؔ کی خوش پوشی سے
آتش فرحتؔ و اسماؔ نے جلائے دو چراغ
ایک بینش سے جلا ایک جلا یوشی سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.