جتنا تھا جینا جی لیے مر جانا چاہیے
جتنا تھا جینا جی لیے مر جانا چاہیے
حد ہو گئی تو حد سے گزر جانا چاہیے
ٹھہرے ہوئے ہیں کب سے یہ مہمان کی طرح
آنکھوں سے آنسوؤں کو بکھر جانا چاہیے
یہ کیا کہ روز قصے میں تم شیر ہی بنو
یارو کبھی کبھار تو ڈر جانا چاہیے
اس کی گلی میں جور و جفا عام ہے بہت
اس کی گلی میں یار مگر جانا چاہیے
اب کے تو معرکہ ہے بہت سخت زیست کا
اب کے تو معرکے میں یہ سر جانا چاہیے
چل تو رہے ہیں لوگ یہاں قافلے کے ساتھ
لیکن پتہ نہیں ہے کدھر جانا چاہیے
یوں تو مشاعروں سے یہ جی بھر گیا مگر
کہنا عبیدؔ کا ہے قمرؔ جانا چاہیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.