جو دیا تو نے ہمیں وہ صورت زر رکھ لیا
جو دیا تو نے ہمیں وہ صورت زر رکھ لیا
تو نے پتھر دے دیا تو ہم نے پتھر رکھ لیا
سسکیوں نے چار سو دیکھا کوئی ڈھارس نہ تھی
ایک تنہائی تھی اس کی گود میں سر رکھ لیا
گھٹ گیا تہذیب کے گنبد میں ہر خواہش کا دم
جنگلوں کا مور ہم نے گھر کے اندر رکھ لیا
میرے بالوں پہ سجا دی گرم صحراؤں کی دھول
اپنی آنکھوں کے لیے اس نے سمندر رکھ لیا
درز تک سے اب نہ پھوٹے گی تمنا کی پھوار
چشمۂ خواہش پہ ہم نے دل کا پتھر رکھ لیا
وہ جو اڑ کر جا چکا ہے دور میرے ہاتھ سے
اس کی اک بچھڑی نشانی طاق میں پر رکھ لیا
دید کی جھولی کہیں خالی نہ رہ جائے عدیمؔ
ہم نے آنکھوں میں ترے جانے کا منظر رکھ لیا
پھینک دیں گلیاں برون صحن سب اس نے عدیمؔ
گھر کہ جو مانگا تھا میں نے وہ پس در رکھ لیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.