جو نقش مٹ چکا ہے بنانا تو ہے نہیں
جو نقش مٹ چکا ہے بنانا تو ہے نہیں
اجڑا دیار ہم نے بسانا تو ہے نہیں
آنکھوں کے دیپ راہ میں اس کے جلائیں کیا
اس نے پلٹ کے پھر کبھی آنا تو ہے نہیں
لازم ہے چلنا زیست کی راہوں پہ بھی مگر
جو گر پڑے کسی نے اٹھانا تو ہے نہیں
بھر جائے گا یہ تھوڑی سی چارہ گری کے بعد
تازہ لگا ہے زخم پرانا تو ہے نہیں
کب تک وفا کے معنی بتاتا رہوں اسے
اس بے وفا نے راہ پہ آنا تو ہے نہیں
کچھ دیر ٹھہر جائے وہ خود ہی خدا کرے
اس بار کوئی ایسا بہانا تو ہے نہیں
پھر خواہشوں کے پیڑ پہ بیٹھیں گے دیکھنا
ان پنچھیوں کا کوئی ٹھکانا تو ہے نہیں
اللہ رے وفائیں یہ خوبان شہر کی
منظر دھواں دھواں ہے سہانا تو ہے نہیں
منسوب کر دوں میں جو تری زندگی کے ساتھ
یادوں کا میرے پاس خزانہ تو ہے نہیں
کیوں پھر کسی کے دل میں محبت بسائیں ہم
جب عاشقی میں نام کمانا تو ہے نہیں
قسمت ہے اس کے سامنے بن جائے کوئی بات
ویسے کوئی بھی بات بنانا تو ہے نہیں
سوچوں تو سارے لوگ نشانے پہ ہیں مگر
دیکھوں کوئی کسی کا نشانہ تو ہے نہیں
وہ اپنا درد آپ سنائے تو بات ہے
ہم نے کسی کا درد سنانا تو ہے نہیں
اک دوسرے کی گھات میں بیٹھے ہیں سب مگر
اس وقت نے کسی کو بچانا تو ہے نہیں
ہے طائران شوق کا مسلک تو خامشی
ہے مصلحت کہ شور مچانا تو ہے نہیں
عشق و نظر کا دائمی رشتہ ازل سے ہے
مجنوں نے شہر چھوڑ کے جانا تو ہے نہیں
حاصل کیا نہ اس لیے تعمیر کا ہنر
ہم نے نیا جہان بسانا تو ہے نہیں
کیسے رسائی ہو مری اس کے مزاج تک
احوال اس نے دل کا سنانا تو ہے نہیں
محروم ہم نہ ہوں کبھی ماں کی دعاؤں سے
نایاب ایسا کوئی خزانہ تو ہے نہیں
دیکھے گا کون چاک گریبان کو نبیلؔ
فرہاد و قیس کا یہ زمانہ تو ہے نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.