جو سارے ہم سفر اک بار حرز جاں کر لیں
جو سارے ہم سفر اک بار حرز جاں کر لیں
تو جس زمیں پہ قدم رکھیں آسماں کر لیں
اشارہ کرتی ہیں موجیں کہ آئے گا طوفاں
چلو ہم اپنے ارادوں کو بادباں کر لیں
پروں کو جوڑ کے اڑنے کا شوق ہے جن کو
انہیں بتاؤ کہ محفوظ آشیاں کر لیں
جو قتل تو نے کیا تھا بنا کے منصوبہ
ترے ستم کو بڑھائیں تو داستاں کر لیں
دہکتے شعلوں پہ چلنے کا شوق ہے جن کو
رتوں کی آگ میں وہ حوصلے جواں کر لیں
یہ ان سے کہہ دو اگر امتحان کی ضد ہے
سمندروں کی طرح دل کو بے کراں کر لیں
ہر ایک بوند کا لیں گے حساب ہم علویؔ
ہمارے خون سے دل کو وہ شادماں کر لیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.