جگنو جگنو چمکا کر
سارا منظر اجلا کر
کھڑکی ہو یا دروازہ
اپنے اندر کھولا کر
مایا کیا ہے اک سایہ
سائے کا مت پیچھا کر
اتنے گہرے پانی میں
یوں نہ اکیلا اترا کر
کچے گھر میں رہتا ہے
بارش میں مت بھیگا کر
پنچھی اپنے پر پھیلا
دھوپ کڑی ہے سایہ کر
ہم بھی تیرے جیسے ہیں
ہم سے بھی کھل کھیلا کر
تن تیرا ہے من تیرا
اجلا رکھ یا میلا کر
جاگے گا سورج لیکن
کروٹ کروٹ تڑپا کر
اندر کیا ہے باہر کیا
پہروں بیٹھا سوچا کر
بعض خدا کے بندوں سے
سچ کیا ہے مت پوچھا کر
لفظوں کے طوطا مینا
خوش فہموں میں بیچا کر
یہ میداں پتھریلا ہے
اتنا بھی مت دوڑا کر
غالبؔ کیا ہے وصفیؔ کیا
ہم ایسوں سے پوچھا کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.