کالی غزل سنو نہ سہانی غزل سنو
کالی غزل سنو نہ سہانی غزل سنو
موسم یہ کہہ رہا ہے کہ دھانی غزل سنو
جاگا وہ درد دل میں کہ آنسو نکل پڑے
برسا ہے آج ٹوٹ کے پانی غزل سنو
افسانۂ جنوں نہیں پابند ماہ و سال
یاد آ رہا ہے دور جوانی غزل سنو
اپنی تمام عقل پرستی کے باوجود
یہ زندگی ہے اب بھی دوانی غزل سنو
یوں تو سخن کے اور بھی پیرائے ہیں مگر
کہنی ہے ہم کو دل کی کہانی غزل سنو
ہوں زخم عشق یا کہ زمانے کے درد و داغ
ہر غم یہاں ہے دشمن جانی غزل سنو
خون جگر میں فکر کی گہرائیاں بھی ہیں
گر ہے مزاج فلسفہ دانی غزل سنو
سر پر ہوائے سنگ ملامت چلی بہت
لیکن غزل نے ہار نہ مانی غزل سنو
زیب شفق ہے نوع بشر کا لہو سحرؔ
ہر شے ہے اس جہان کی فانی غزل سنو
- کتاب : kitab numa (Pg. 13)
- مطبع : maktaba jamia (1993)
- اشاعت : 1993
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.