کام آ گئی ہے گردش دوراں کبھی کبھی
کام آ گئی ہے گردش دوراں کبھی کبھی
دیکھی ہے زلف یار پریشاں کبھی کبھی
خون جگر سے آتش سوزاں کو شہہ ملی
خود درد بن کے رہ گیا درماں کبھی کبھی
طوفاں کی ٹھوکروں سے کنارہ کبھی ملا
ساحل سے آ کے لے گیا طوفاں کبھی کبھی
وحشت نے مجھ کو بزم طرب سے اٹھا دیا
نکلا اس انجمن سے پریشاں کبھی کبھی
اکثر خوشی ہی بن گئی ہے دشمن سکوں
غم بن گیا سکوت کا ساماں کبھی کبھی
دست خرد نے مصلحتاً چاک بھی کیا
سی بھی لیا جنوں نے گریباں کبھی کبھی
دیوانوں میں شمار ہوا اس غریب کا
اقبالؔ ہو گیا جو غزل خواں کبھی کبھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.