کاش اک شب کے لیے خود کو میسر ہو جائیں
کاش اک شب کے لیے خود کو میسر ہو جائیں
فرش شبنم سے اٹھیں اور گل تر ہو جائیں
دیکھنے والی اگر آنکھ کو پہچان سکیں
رنگ خود پردۂ تصویر سے باہر ہو جائیں
تشنگی جسم کے صحرا میں رواں رہتی ہے
خود میں یہ موج سمو لیں تو سمندر ہو جائیں
وہ بھی دن آئیں یہ بے کار گزرتے شب و روز
تیری آنکھیں ترے بازو ترا پیکر ہو جائیں
اپنی پلکوں سے جنہیں نوچ کے پھینکا ہے ابھی
کیا کرو گے جو یہی خواب مقدر ہو جائیں
جو بھی نرمی ہے خیالوں میں نہ ہونے سے ہے
خواب آنکھوں سے نکل جائیں تو پتھر ہو جائیں
- کتاب : Beesveen Sadi Ki Behtareen Ishqiya Ghazlen (Pg. 73)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.