کبھی دہکتی کبھی مہکتی کبھی مچلتی آئی دھوپ
کبھی دہکتی کبھی مہکتی کبھی مچلتی آئی دھوپ
ہر موسم میں آنگن آنگن روپ بدل کر چھائی دھوپ
اس کو زخم ملے دنیا میں جس نے مانگے تازہ پھول
جس نے چاہی چھاؤں کی چھتری اس کے سر پر چھائی دھوپ
جانے اپنا روپ دکھا کر کس نے پردہ تان لیا
کس کی کھوج میں آوارہ ہے انگنائی انگنائی دھوپ
چڑھتے سورج کی کرنیں ہیں دولت عزت شہرت شان
آخر آخر ہر دیوار سے یارو ڈھلتی آئی دھوپ
دانش کی افزونی اکثر کرتی ہے دل کو گمراہ
تیز زیادہ ہو تو چھینے آنکھوں کی بینائی دھوپ
ماتھے پر سیندور کی بندیا تھالی میں کچھ سرخ گلاب
نور کے تڑکے اوشا تٹ پر پوجا کرنے آئی دھوپ
کون بڑھائے پیار کی پینگیں اس نٹ کھٹ بنجارن سے
پھرنے کو تو نگری نگری پھرتی ہے ہرجائی دھوپ
جنم جنم کے اندھیارے کا جادو چھن میں ٹوٹ گیا
صابرؔ آج مری کٹیا میں چپکے سے در آئی دھوپ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.