کبھی فراق کبھی لذت وصال میں رکھ
مجھ اعتدال سے عاری کو اعتدال میں رکھ
نچا رہا ہے مجھے انگلیوں پہ عشق ترا
تمام عمر اسی رقص بے مثال میں رکھ
دکھی ہو دل تو اترتی ہے شاعری مجھ پر
تجھے غزل کی قسم ہے مجھے ملال میں رکھ
تو چاہتا ہے اگر کار۔آفتاب کروں
مرا عروج مری ساعت زوال میں رکھ
ترے بغیر گزاری ہے زندگی میں نے
تو اس ستم کی تلافی بھی ماہ و سال میں رکھ
تو دل ہے اور دھڑکنا تری عبادت ہے
سو خود کو جسم سے باہر بھی تو دھمال میں رکھ
شکم سے ہو کے گزرتے ہیں قول و فعل مرے
مجھ ایسے شخص کو نان و نمک کے جال میں رکھ
مرے بدن کو بھلے اس سے آگ لگ جائے
چراغ حرف مگر میرے بال بال میں رکھ
میں اس عذاب کے نشے میں مبتلا ہوں کبیرؔ
پرائی آگ اٹھا کر مری سفال میں رکھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.