کبھی سکوں تو کبھی اضطراب جیسا ہے
کبھی سکوں تو کبھی اضطراب جیسا ہے
اب اس کا ملنا ملانا بھی خواب جیسا ہے
یہ تشنگئ محبت نہ بجھ سکے گی کبھی
یہ مت کہو کہ یہ دریا سراب جیسا ہے
غموں کی دھوپ میں امید کے بھی سائے ہوں
تو زندگی میں یہی انقلاب جیسا ہے
کبھی خیال سے باہر کبھی خیال میں ہے
وہ ایک چہرہ جو دل میں گلاب جیسا ہے
کوئی ملے نہ ملے بیقرار رہتا ہے
کہ دل کا حال بھی اک موج آب جیسا ہے
ہمارے دل میں وہی ہے جو سب پہ ظاہر ہے
کہ اپنا چہرہ کھلی اک کتاب جیسا ہے
وہ جس کی ذات سے جینے کا لطف تھا نادرؔ
بچھڑ گیا تو یہ جینا عذاب جیسا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.