کہیں سے لوٹ کے ہم لڑکھڑائے ہیں کیا کیا
کہیں سے لوٹ کے ہم لڑکھڑائے ہیں کیا کیا
ستارے زیر قدم رات آئے ہیں کیا کیا
نشیب ہستی سے افسوس ہم ابھر نہ سکے
فراز دار سے پیغام آئے ہیں کیا کیا
جب اس نے ہار کے خنجر زمیں پہ پھینک دیا
تمام زخم جگر مسکرائے ہیں کیا کیا
چھٹا جہاں سے اس آواز کا گھنا بادل
وہیں سے دھوپ نے تلوے جلائے ہیں کیا کیا
اٹھا کے سر مجھے اتنا تو دیکھ لینے دے
کہ قتل گاہ میں دیوانے آئے ہیں کیا کیا
کہیں اندھیرے سے مانوس ہو نہ جائے ادب
چراغ تیز ہوا نے بجھائے ہیں کیا کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.