کیسے کٹے قصیدہ گو حرف گروں کے درمیاں
کیسے کٹے قصیدہ گو حرف گروں کے درمیاں
کوئی تو سر کشیدہ ہو اتنے سروں کے درمیاں
ایک تو شام رنگ رنگ پھر مرے خواب رنگ رنگ
آگ سی ہے لگی ہوئی میرے پروں کے درمیاں
ہاتھ لیے ہیں ہاتھ میں پھر بھی نظر ہے گھات میں
ہم سفروں کی خیر ہو ہم سفروں کے درمیاں
اب جو چلے تو یہ کھلا شہر کشادہ ہو گیا
بڑھ گئے اور فاصلے گھر سے گھروں کے درمیاں
کیسے اڑوں میں کیا اڑوں جب کوئی کشمکش سی ہو
میرے ہی بازوؤں میں اور میرے پروں کے درمیاں
جام سفال و جام جم کچھ بھی تو ہم نہ بن سکے
اور بکھر بکھر گئے کوزہ گروں کے درمیاں
جیسے لٹا تھا شوقؔ میں یوں ہی متاع فن لٹی
اہل نظر کے سامنے دیدہ وروں کے درمیاں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.