کلیجے کرب سہتے سہتے چھلنی ہو چکے ہیں
کلیجے کرب سہتے سہتے چھلنی ہو چکے ہیں
مگر اب کیا کریں ہم اس کے عادی ہو چکے ہیں
ہمارے سامنے سے عشق و الفت کو اٹھا لے
یہ قصے ہم تک آتے آتے ردی ہو چکے ہیں
ستم اے گردش دوراں کسے دکھڑے سنائیں
دلاسہ دینے والے ہاتھ مٹی ہو چکے ہیں
تو کیا پیاسوں کو پانی بھی پلانے سے گئے ہم
تو کیا یہ مان لیں ہم لوگ کوفی ہو چکے ہیں
ہمارے شہر سے ممکن ہو تو بچ کر گزر جا
ہمارے شہر کے سب لوگ وحشی ہو چکے ہیں
ارے حیرت سے کیا دیکھے ہیں آنکھوں کو ہماری
یہ مشکیزے تو اک مدت سے خالی ہو چکے ہیں
جو موزوں ہیں انہیں قیمت مناسب ہی ملے گی
مگر سستے بکیں گے وہ جو داغی ہو چکے ہیں
ہمارا نام ناموں سے الگ لکھے گی دنیا
کہ ہم تیری محبت میں مثالی ہو چکے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.