کرب ہستی یوں چھپانا چاہیے
کرب ہستی یوں چھپانا چاہیے
اشک پی کر مسکرانا چاہیے
مستقل ہنسنے کی عادت ڈال کر
جلنے والوں کو جلانا چاہیے
آپ منصف ہیں تو کر دیں فیصلہ
کیا کسی کا دل دکھانا چاہیے
حال پر جب بوجھ بن جائے تو پھر
اپنا ماضی بھول جانا چاہیے
کر کے اظہار تمنا پھر کوئی
دوستوں کو آزمانا چاہیے
بالیقیں آہوں میں ہوتا ہے اثر
لیکن اس کو اک زمانہ چاہیے
نت نئے الزام سر رکھ کر مرے
قتل کا میرے بہانا چاہیے
صبر اک اچھی علامت ہے مگر
ظلم سے پنجہ لڑانا چاہیے
بار ہیں جس پر فقط مکر و فریب
ایسی کشتی ڈوب جانا چاہیے
مصلحت کی ظلم نے پہنی نقاب
رخ سے یہ پردہ ہٹانا چاہیے
منزلوں کی گر ہے تم کو جستجو
خواب پلکوں پر سجانا چاہیے
پتھروں کا شہر ہے ببیاکؔ یہ
اب الگ بستی بسانا چاہیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.