کرب وحشت الجھنیں اور اتنی تنہائی کہ بس
کرب وحشت الجھنیں اور اتنی تنہائی کہ بس
جانے کیوں تقدیر نے لی ایسی انگڑائی کہ بس
جب کبھی بھولے سے بھی آئینہ دیکھا تیرے بعد
اپنی ہی صورت میں وہ صورت نظر آئی کہ بس
توڑنے جب بھی چلا زندان آب و گل کو میں
جانی پہچانی ہوئی آواز اک آئی کہ بس
چلچلاتی دھوپ غم کی حادثوں کے سائباں
سوچ کا تپتا یہ صحرا اور یہ پروائی کہ بس
کاش نا بینا ہی رہتا اس مقار خانہ میں
تحفۃً دنیا نے دی ہے ایسی بینائی کہ بس
نوچتی کب تک رہیں گی یوں برہنہ خواہشیں
تا بہ کے ہوتی رہے گی ایسی رسوائی کہ بس
میں ہوں اے حمدونؔ اک زندہ گرفتار لحد
اپنی ہی تقدیر سے ٹھوکر وہ ہے کھائی کہ بس
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.