کھڑی ہے رات اندھیروں کا ازدحام لگائے
کھڑی ہے رات اندھیروں کا ازدحام لگائے
اور ایک روشنی بیٹھی ہے اپنا کام لگائے
یہ کم نہیں کہ خریدا اسی پری نے ہمیں
اگرچہ اس نے بہت کم ہمارے دام لگائے
میں آفتاب زدہ ہوں کہاں ہے زلف اس کی
کہ آئے اور مری آنکھوں پہ اپنی شام لگائے
میں آیا کام کیا اپنا اور چل بھی دیا
زمانہ بیٹھا رہا اپنا تام جھام لگائے
نہ جانے کتنے زمانوں کی منتظر آنکھیں
رہ امید پہ بیٹھی ہوئی ہیں جام لگائے
چمن میں اس نے لگائے ہمارے نام کے پھول
تو ہم نے صفحۂ ہستی پہ اس کے نام لگائے
مگر میں چھوٹ گیا میرے زور دشت کی خیر
تمام شہر رہا قفل انتظام لگائے
ہماری باری اب آنی ہے کوزہ گر سے کہو
کہ رنگ شوخ کرے خوب خاک خام لگائے
ملازمت جو ملی دفتر فنا میں ملی
پھرے تھے ہم جو بہت عرضئ دوام لگائے
بنا ہے شہر کا سرمایہ کار یوں احساسؔ
کہ اک حلال لگانے میں سو حرام لگائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.