خموش جادۂ انکار بھی ہے صحرا بھی
خموش جادۂ انکار بھی ہے صحرا بھی
عزا میں پائے جنوں بار بھی ہے صحرا بھی
کہیں بھی جائیں لہو کو تو صرف ہونا ہے
کہ تشنہ کوچۂ دل دار بھی ہے صحرا بھی
متاع زیست خریدیں کہ تیری سمت بڑھیں
ہمارے سامنے بازار بھی ہے صحرا بھی
مجھے تو ساری حدوں سے گریز کرنا ہے
مرا حریف تو گھر بار بھی ہے صحرا بھی
یہیں یہ دھول یہیں خوشبوئیں بھی اڑتی ہیں
یہ دل کہ خطۂ گلزار بھی ہے صحرا بھی
نہ چھوڑتا ہے نہ زنجیر کر کے رکھتا ہے
ترا خیال کہ دیوار بھی ہے صحرا بھی
یہ کیا جگہ ہے جہاں دونوں وقت ملتے ہیں
یہاں درخت ثمر بار بھی ہے صحرا بھی
ذرا سی چوک سے پانسہ پلٹ بھی سکتا ہے
کہ عقل شہر فسوں کار بھی ہے صحرا بھی
- کتاب : Sadaa-e-aabju (Pg. 53)
- Author : Arshad Abdul Hameed
- مطبع : Arshad Abdul Hameed (2004)
- اشاعت : 2004
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.