خط ادھورے تھے مگر وہ چٹھیاں اچھی لگیں
خط ادھورے تھے مگر وہ چٹھیاں اچھی لگیں
کاغذوں سے ہی سہی نزدیکیاں اچھی لگیں
ذکر میں بھی نام ان کا ہم نہ لے پائے کبھی
پیار میں ان بندشوں کی چپیاں اچھی لگیں
رات بھی خاموش تھی اور چاند بھی غمگین تھا
آنکھ میں ڈورے لیے وہ سرخیاں اچھی لگیں
چاک خود ہی ہو گئی اس باغ کے ہی بام پر
اف تلک نا کر سکیں جو تتلیاں اچھی لگیں
پھول شاخوں پر پلک نم اوس سے کرتے رہے
پر ہمیں تو خار کی وہ برچھیاں اچھی لگیں
آسماں نے دھوپ کی جب گنگنائی ہے غزل
وہ ہمیں نور سحر کی سردیاں اچھی لگیں
پتھروں میں باندھ کر کے پھینکنا چھت پر مری
رات میں آتی ہوئی وہ پرچیاں اچھی لگیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.