ختم ہے بادل کی جب سے سائبانی دھوپ میں
ختم ہے بادل کی جب سے سائبانی دھوپ میں
آگ ہوتی جا رہی ہے زندگانی دھوپ میں
چاند کی آغوش میں ہونے سے جس کا ہے وجود
کھل سکے گی کیا بھلا وہ رات رانی دھوپ میں
اس کی فرقت کی تپش میں میں جھلس کر رہ گئی
ورنہ اتنی تاب کب تھی آسمانی دھوپ میں
کچھ چمکتا سا نظر آنے لگا ہے ریت میں
بڑھ رہی ہے میرے قدموں کی روانی دھوپ میں
ایک سایہ ساتھ میرے ہم سفر بن کر مرا
لکھ رہا ہے پھر کوئی تازہ کہانی دھوپ میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.