خیال آتشیں خوابیدہ صورتیں دی ہیں
خیال آتشیں خوابیدہ صورتیں دی ہیں
سخاۓ ہجر نے اب بھی نمائشیں دی ہیں
یہ اب جو خواب زمانوں نے دستکیں دی ہیں
پس مراد حقائق کی منزلیں دی ہیں
مرے لباس کے پیوند مفلسی پہ نہ جا
مرے جنوں نے محبت کو خلعتیں دی ہیں
مرے مزاج کا موسم عجیب موسم ہے
کہ جس کے غم نے بھی ہستی کو رونقیں دی ہیں
ہم اہل عشق نے تاوان راحتیں دے کر
حدود عرصۂ وحشت کو وسعتیں دی ہیں
چلو یہ بات غلط ہے تو پھر بتاؤ مجھے
ہر ایک ہاتھ میں کس کس نے مشعلیں دی ہیں
شعور جائے تو فرصت سے نیند بھی آئے
فشار ذات نے فرحتؔ کو رنجشیں دی ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.