خزاں کا روپ نہ رنگ بہار اپنا ہے
خزاں کا روپ نہ رنگ بہار اپنا ہے
یہ کم نہیں کہ دل داغدار اپنا ہے
پرکھ لو جنس ہنر کو مری نظر والو
ابھی رواں قلم سحر کار اپنا ہے
ادھر خرد کا تقاضہ ادھر پیام جنوں
میں کیا بتاؤں کسے انتظار اپنا ہے
نشاط و عیش کے لمحے تو عارضی ہیں فقط
رفیق عمر غم پائیدار اپنا ہے
مٹا ہی دے گی کسی دن یہ گردش دوراں
وجود صورت نقش و نگار اپنا ہے
بتا دیا ہے ہواؤں نے زرد پتوں کو
خزاں میں کون دم انتشار اپنا ہے
ملا ہی کیا ہمیں آخر رفاقت گل سے
لپٹ رہا ہے جو دامن سے خار اپنا ہے
کسی کے دامن رنگیں پہ میل کیا آئے
اڑا جو راہ سے ہٹ کر غبار اپنا ہے
دلاسے دے جو نہ امید ہی شب وعدہ
تو کون اے خلش انتظار اپنا ہے
بقدر ظرف ہی ملتی ہے دست ساقی سے
اگرچہ بزم میں ہر بادہ خوار اپنا ہے
پناہ دے جو کڑی دھوپ کی اذیت سے
بس اک وہی شجر سایہ دار اپنا ہے
فقیر مے کدہ ہم بھی تو ہیں مگر ساقی
نہ جانیں کون سی صف میں شمار اپنا ہے
خوشا وہ شمع لحد جس کی روشنی پھیلی
جو بجھ گیا وہ چراغ مزار اپنا ہے
کسی کو کیا کہیں بہزادؔ اس زمانے میں
ہمیں کو خود نہیں جب اعتبار اپنا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.