خزاں نصیب کی حسرت بروئے کار نہ ہو
دلچسپ معلومات
(کانپور: 18 نومبر 1947ء)
خزاں نصیب کی حسرت بروئے کار نہ ہو
بہار شعبدۂ چشم انتظار نہ ہو
فریب خوردۂ الفت سے پوچھئے کیا ہے
وہ ایک عہد محبت کہ استوار نہ ہو
نظر کو تاب نظارہ نہ دل کو جرأت دید
جمال یار سے یوں کوئی شرمسار نہ ہو
قبا دریدہ و دامان و آستیں خونیں
گلوں کے بھیس میں یہ کوئی دل فگار نہ ہو
نہ ہو سکے گا وہ رمز آشنائے کیف حیات
جو قلب چشم تغافل کا رازدار نہ ہو
طریق عشق پہ ہنستی تو ہے خرد لیکن
یہ گمرہی کہیں منزل سے ہمکنار نہ ہو
نہ طعنہ زن ہو کوئی اہل ہوش مستوں پر
کہ زعم ہوش بھی اک عالم خمار نہ ہو
وہ کیا بتائے کہ کیا شے امید ہوتی ہے
جسے نصیب کبھی شام انتظار نہ ہو
یہ چشم لطف مبارک مگر دل ناداں
پیام عشوۂ رنگیں صلائے دار نہ ہو
کسی کے لب پہ جو آئے نوید زیست بنے
وہی حدیث وفا جس پہ اعتبار نہ ہو
جو دو جہان بھی مانگے تو میں نے کیا مانگا
وہ کیا طلب جو بقدر عطائے یار نہ ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.