کھو گئے یوں کارخانے یا کسی دفتر میں ہم
کھو گئے یوں کارخانے یا کسی دفتر میں ہم
چھٹیوں میں اجنبی لگتے ہیں اپنے گھر میں ہم
فاصلے سے دیکھنے والا ہمیں سمجھے گا کیا
پیاس کا صحرا ہیں دریاؤں کے پس منظر میں ہم
رات کو سونے سے پہلے کیا کریں اس کا حساب
کتنے سایوں کا تعاقب کر سکے دن بھر میں ہم
بس ہمیں ہم ہیں جہاں تک کام کرتی ہے نگاہ
ایک ذرہ ہیں مگر پھیلے ہیں بحر و بر میں ہم
مختلف خاکوں میں چھینٹوں کی طرح تقسیم ہیں
کیا ابھر کر سامنے آئیں کسی منظر میں ہم
دوسری جانب اندھیرا ہے تو کس امید پر
جاگتی آنکھوں کو رکھ آئے شگاف در میں ہم
ہے یہ مجبوری کہ آنچ آتی ہے چاروں سمت سے
ورنہ سوچا تھا جئیں گے موم کے پیکر میں ہم
ہاتھ جس شے کی طرف لپکے وہ غائب ہو گئی
پھنس گئے ماہرؔ یہ کس آسیب کے چکر میں ہم
- کتاب : Hari Sonahri Khak (Ghazal) (Pg. 119)
- Author : Mahir Abdul Hayee
- مطبع : Bazme-e-Urdu,Mau (2008)
- اشاعت : 2008
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.